ارشاد باری: ﴿وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ﴾ صبر کی ان تینوں قسموں کو متناول ہے۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کی معصیت سے صبر کرنا۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کی اقدار پر صبر کرنا۔
یعنی اپنے رب کے شرعی اور کوفی حکم پر صبر کیجئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ صبر کی جن تین قسموں کا علماء نے ذکر کیا ہے وہ ارشاد ربانی: ﴿وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ﴾ میں داخل ہیں اور وجہ ودخول یہ ہے کہ حکم کوفی ہو گا یا شرعی۔ اور شرعی حکم اوامر و نواہی پر مشتمل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کو کئی چیزوں کا حکم دیا، کئی امور سے منع فرمایا، اور کئی چیزیں آپ کے مقدر میں کردیں ۔ او امر کا بیان ان جیسی آیات میں آیا ہے:
﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ﴾ (المائدہ:۶۷)’’اے رسول! جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا اسے ان تک پہنچا دیں ۔‘‘ ﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ﴾ (النحل:۱۲۵) ’’بلاؤ اپنے رب کے راستے کی طرف۔‘‘ یہ احکام بڑی عظمت کے حامل ہیں ۔ اگر کسی آدمی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کو کہا جائے تو وہ اس پر آسانی سے عمل کرے گا، لیکن دعوت و تبلیغ کا کام امر دشوار ہے، کیونکہ اس کے لیے دوسروں کے سخت رویے اور مخالفانہ طرز عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ یقینا بڑا مشکل کام ہے۔
جہاں تک نواہی کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرک سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَ لَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ (الانعام:۱۴)’’اور مشرکوں میں سے ہرگزنہ ہونا۔‘‘
﴿لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ﴾ (الزمر:۶۵)
’’اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔‘‘
اور ان جیسی دیگر آیات۔ رہے قدری احکام، تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنی قوم کی طرف سے ایسی قولی اور فعلی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے لوگ ہی صبر کر سکتے تھے۔
ان لوگوں نے آپ کو زبان سے ایذائیں پہنچائیں ، آپ کا مذاق اڑایا، تحقیر کی، لوگوں کو آپ سے بیزار کرایا۔ اور اپنے فعل و عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا۔ آپ کعبۃ اللہ میں اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز تھے کہ اسی حالت میں آپ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی لا کر رکھ دی گئی۔[1] اس اذیت سے بڑھ کر اور کیا اذیت ہو سکتی تھی۔ یہ سبھی کے علم میں تھا کہ حرم میں داخل ہونے والے ہر شخص کو امن حاصل ہوتا ہے، نہ صرف یہ کہ مشرکین مکہ اسے اذیت رسانی سے باز رہتے بلکہ اسے پوری پوری عزت دیتے، اسے نبیذ کھلاتے اور آب زمزم پلاتے۔ جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کی حالت میں اس جیسی اذیت سے دو چار کرتے۔
|