Maktaba Wahhabi

211 - 552
بعض لوگ حدیث کے الفاظ ’’انہ اعور‘‘ کا معنی: ’’عیب دار‘‘ کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ یہ عور العین سے ماخوذ نہیں ہے، مگر یہ تحریف اور بخاری وغیرہ کے ان صحیح الفاظ سے تجاہل ہے: ’’اعور عین الیمنی کان عینہ عنب طافیۃ‘‘[1] ’’وہ دائیں آنکھ سے کانا ہے، گویا کہ اس کی آنکھ پھولا ہوا انگور ہے۔‘‘ نیز عربی زبان میں (اعور) کا لفظ صرف آنکھ کے کانے پن کے لیے بولا جاتا ہے، البتہ (عَوَرَ) اور (عوار) سے مطلق عیب مراد لیا جا سکتا ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صرف دو آنکھیں ہیں ۔ اور وجہ دلالت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی دو سے زیادہ آنکھیں ہوتیں تو آپ علیہ السلام فرماتے کہ تمہارے رب کی کئی آنکھیں ہیں ، اس سے دجال کے رب نہ ہونے کی زیادہ وضاحت ہو جاتی۔ نیز اس لیے بھی کہ اگر اس کی دو سے زیادہ آنکھیں ہوتیں ، تو چونکہ یہ بات اس کے کمال کی مظہر تھی، لہٰذا اسے بیان نہ کرنا اس کی ثناء کا موقع کھو دینے کے مترادف ہوتا چونکہ کثرت، کمال وتمام اور قوت پر دلالت کرتی ہے لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ کی آنکھیں کثیر تعداد میں ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ضرور وضاحت فرماتے تاکہ ہم اس کمال پر اعتقاد سے محروم نہ رہتے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الصواعق المرسلۃ‘‘ میں ایک حدیث ذکر کی ہے، مگر وہ منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں : ’’ان العبد اذا قام فی الصلاۃ قام بین عینی الرحمان‘‘[2] ’’یقینا بندہ جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو رحمان کی دو آنکھوں کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔‘‘ اس حدیث میں دو آنکھوں کا ذکر ہے، مگر جیسا کہ ہم نے بتایا یہ حدیث ضعیف ہے، ہم اپنے اس عقیدہ کے لیے دجال کے بارے میں وارد صحیح حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ بالکل واضح ہے۔ اس حدیث کو عثمان بن سعید دارمی نے ’’الرد علی بشر المریسی‘‘ اور ابن خزیمہ نے ’’کتاب التوحید‘‘ میں ذکر کیا ہے ابوالحسن الاشعری اور ابوبکر الباقلانی نے اس پر سلف کے اجماع کا ذکر کیا ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دو آنکھیں ہیں ، اس سے زیادہ ہرگز نہیں ۔ سوال : معروف ائمہ سلف ارشاد باری تعالیٰ: ﴿بِاَعْیُنِنَا﴾ کی تفسیر: مر ای منا کے ساتھ کرتے ہیں ، یعنی آپ ایسی جگہ میں ہیں جہاں ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں ۔ جبکہ آپ کہتے ہیں کہ تحریف حرام اور ممتنع ہے۔ اس کا کیا جواب ہے؟ جواب : ائمہ سلف نے اس کی تفسیر لازم کے ساتھ کی ہے، اور وہ اصل یعنی آنکھ کا بھی اثبات کرتے ہیں ، جبکہ اہل تحریف اس کا معنی تو یہی کرتے ہیں مگر وہ آنکھ کا اثبات نہیں کرتے۔ اہل سنت رؤیت کے ساتھ آنکھ کا ابھی اثبات کرتے ہیں ۔
Flag Counter