معطلہ کا اعتراض:تم ہماری طرف سے تاویل پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیتے ہو، جب کہ خود تم نے ارشاد باری ﴿فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا﴾ میں تاویل کر کے اسے اس کے ظاہر سے نکال دیا، تم اپنے دعوے کے مطابق ظاہر آیت پر عمل کرو، ویسے ہم آپ کو یہ بتائے دیتے ہیں کہ اگر تم ظاہر پر عمل کرو گے تو کفر کا ارتکاب کرو گے اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو تناقض کا شکار ہوگے، تم کبھی تاویل کے جواز کا فتویٰ دیتے ہو اور کبھی عدم جواز کا، اور اسے تحریف سے موسوم کرتے ہو، کیا یہ اللہ کے دین میں من پسندانہ فیصلہ نہیں ہے؟ اس اعتراض کا جواب: ہم بصد خوشی ظاہر پر عمل کرتے ہیں ۔ ہمارا طریقہ یہی ہے اور ہم اس کے خلاف نہیں جا سکتے۔ معطلہ کا کہنا ہے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی آنکھ میں ہیں ، آنکھ کے وسط میں ہیں ، آپ کہتے ہیں : زید بالبیت، زید بالمسجد (باء) ظرفیت کے لیے ہے، لہٰذا اس کا یہ معنی ہوگا کہ زید گھر کے اندر ہے، زید مسجد کے اندر ہے۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ﴿فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا﴾ کا معنی ہوگا: ’’آپ ہماری آنکھوں کے اندر ہیں ‘‘ اگر آپ یہ معنی کریں گے تو کفر کا ارتکاب کریں گے اس لیے کہ اس طرح تم نے اللہ کو مخلوق قرار دے دیا اور تم حلو لیہ بن گئے۔ اور اگر یہ معنی نہیں کرو گے تو تناقض کا شکار ہو جاؤ گے۔
اس کے جواب میں ہم کہیں گے: معاذ اللہ، پھر معاذ اللہ اور پھر معاذ اللہ کہ تمہارا ذکر کردہ معنی ظاہر قرآن ہو۔ اگر تم اس مفہوم کے ظاہر قرآن ہونے کا اعتقاد رکھتے ہو تو پھر یہ کفر ہے، جو شخص ظاہر قرآن کے کفر کا اعتقاد رکھتا ہے وہ کافر وگمراہ ہے۔
تم لوگ اس قول سے اللہ کے سامنے تو یہ کرو کہ یہ لفظ کا ظاہری مفہوم ہے اور تمام عرب شعراء وادباء سے سوال کرو کہ کیا اس قسم کی عبارت سے ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ جس انسان کی طرف سے آنکھ سے دیکھا جاتا ہے وہ آنکھ کے پپوٹے میں موجود ہوتا ہے؟ تم اہل لغت میں سے جس سے چاہو پوچھ لو، زندوں سے بھی پوچھ لو اور مردوں سے بھی۔
عربی زبان کے اسالیب بیان کا جائزہ لینے کے بعد آپ اس بات سے بخوبی آگاہ ہو جائیں گے کہ جس معنی کے لیے تم نے ہمیں مورد الزام ٹھہرایا ہے اس کا عربی زبان میں کوئی وجود نہیں ہے، چہ جائیکہ اسے رب تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا جائے۔ اسے رب تعالیٰ کی طرف مضاف کرنا کفر اور واجب الانکار ہے۔ یہ معنی لغوی، شرعی اور عقلی اعتبار سے بھی ناقابل تسلیم ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ تم ﴿بِاَعْیُنِنَا﴾ میں (باء) کی تفسیر کس چیز کے ساتھ کرو گے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اس کی تفسیر مصاحبت کے ساتھ کریں گے۔ جب آپ کسی سے کہیں کہ: آمنت بعینی تو اس کا مطلب ہوگا: میری آنکھ تمہارے ساتھ ہے وہ تمہیں دیکھ رہی ہے اور تم سے جدا نہیں ہوگی۔ اس طرح اس آیت کا معنی یہ ہوگا کہ: میرے نبی! اپنے رب کے حکم پر صبر کیجئے، آپ ہماری حفاظت اور ذمہ داری میں ہیں ، ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ آپ کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اس جگہ (باء) کا ظرفیت کے لیے ہونا غیر ممکن ہے، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ کی آنکھ میں موجود ہونا لازم آتا ہے۔ اور یہ محال ہے۔
نیز اس لیے بھی کہ جب اس کے ساتھ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کے خطاب کیا گیا اس وقت آپ زمین پر تھے۔ اس سے بھی ان
|