چھٹی شرط: نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے منع کرنے والا خود بھی اس چیز پر عمل کرے جس کی وہ دوسروں کو تلقین کرتا ہے اور ان امور سے باز رہے جن سے دوسروں کو منع کرتا ہے۔ اور اگر وہ خود اس پر عامل نہیں ہے تو وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے باز رہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا:
﴿اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَــلَا تَعْقِلُوْنَo﴾ (البقرہ:۴۴)
’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم اپنی کتاب کی تلاوت بھی کرتے رہتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘
جو شخص خود نماز نہیں پڑھتا وہ دوسروں کو نماز پڑھنے کا حکم مت دے، اور اگر وہ خود شرب نوشی کرتا ہے تو دوسروں کو اس سے منع نہ کرے۔ایک شاعر کہتا ہے:
لَاتَنْہَ عَن خُلْقٍ وَتأتیَ مِثْلَہْ عاٌرعَلَیْکَ إذَافَعَلْتَ عَظِیْمْ
’’جو کام تو خود کرتا ہے اس سے دوسروں کو مت روک۔ اگر تو یہ کرے گا تو یہ تیرے لیے بڑا معیوب ہے۔‘‘
یہ علماء کی ایک جماعت کی رائے ہے، جس کے لیے انہوں نے اثر اور نظر سے استدلال کیا ہے۔
لیکن جمہور کی رائے اس کے برعکس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا واجب ہے چاہے ایسا کرنے والا خود اس پر عمل نہ بھی کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو نیکی کی تلقین کرنے پر ڈانٹ نہیں پلائی بلکہ اس کی وجہ ان کا امر بالمعروف اور نسیان نفس کو ایک ساتھ جمع کرناتھا۔
علماء کا یہ قول ہی صحیح ہے۔
یہ شرط نہیں لگائی جا سکتی کہ متعلقہ فریق نیکی کا حکم کرنے والے یا برائی سے منع کرنے والے کے اصول میں سے نہ ہو، جیسا کہ اس کا باپ، ماں ، دادا یا دادی، بلکہ اگر یہ کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، اس لیے کہ اس کی زیادہ تاکید ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ انہیں معاصی کے ارتکاب سے روکا جائے اور اطاعت گزاری کی تلقین کی جائے۔
کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اگر میں اپنے باپ کو کسی برائی سے روکوں گا تو وہ مجھ سے ناراض ہو کر مجھ سے قطع تعلقی اختیار کرے گا۔ ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
اس حوالے سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ آپ کو باپ کی ناراضی اور قطع تعلقی پر صبر کرنا چاہیے، اس کا انجام یقینا اچھا ہوگا۔ آپ اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی اتباع کریں ۔ انہوں نے ارتکاب شرک پر اپنے باپ کو سر زنش کرتے ہوئے فرمایا تھا:
﴿یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًاo یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَآئَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبَعْنِیْٓ اَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّاo یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ
|