پانچویں شرط: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر سکوت پر زیادہ خرابی مرتب نہ ہوتی ہو۔ اگر ایسا ہوتو اس پر اس فریضہ کی ادائیگی واجب نہیں ہو گی۔ بلکہ اس کے لیے اس کی ادائیگی جائز ہی نہیں ہوگی۔
اس لیے علماء کرام فرماتے ہیں : برائی کو روکنے سے مندرجہ ذیل چار حالتوں میں سے ایک حالت ضرور پیدا ہوتی ہے:
٭ یا تو برائی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
٭ یا وہ اپنے سے کم تر برائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
٭ یا اس جیسی کوئی اور برائی جنم لے لیتی ہے۔
٭ یا اس سے بھی بڑی برائی سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔
پہلی اور دوسری صورت میں انکار واجب ہے۔
تیسری صورت میں محل نظر ہے۔
اور چوتھی صورت میں انکار منکر جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ انکار منکرسے مقصود اس کا خاتمہ یااس میں کمی کرنا ہوتا ہے جس کا اس جگہ فقدان ہے۔
مثلاً اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو کوئی اچھا کام کرنے کی تلقین کرنا چاہتا ہے مگر اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ باجماعت نماز نہیں پڑے گا، تو اس صورت میں نیکی کا حکم دینا جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کا یہ حکم مستحب فعل کی وجہ سے ترک واجب پر منتج ہوگا۔
اس طرح اگر کسی برائی سے منع کرنے کی صورت میں اس برائی کا ارتکاب کرنے والا اس سے بھی برا فعل کرنا شروع کر دے تو اس حالت میں بھی اسے اس برائی سے روکنا جائز نہیں ہوگا۔
اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾ (الانعام:۱۰۸)
’’اور ان کے ان بتوں کو گالی نہ دیں جنہیں وہ اللہ کے علاوہ بلاتے ہیں ، مبادا وہ گالیاں دیں اللہ کو حدسے گزرتے ہوئے بغیر علم کے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کے جھوٹے خداؤں کے نقائص و عیوب بیان کرنا امر مطلوب ہے۔ مگر چونکہ اس کانتیجہ اس میں پنہاں مصلحت سے زیادہ سنگین امر ممنوع کی صورت میں سامنے آتا ہے، لہٰذا اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے خداؤں پر تنقید کرنے سے منع فر ما دیا۔
اگر کوئی شخص شراب نوشی کرتا ہے۔ اگر ہم اسے شراب نوشی سے منع کریں اور وہ لوگوں کے مال چرانا اور ان کی عزتوں سے کھیلنا شروع کردے تو اس حالت میں بھی ہم اسے شراب نوشی سے نہیں رکیں گے۔ اس لیے کہ اس پر پہلے سے بھی بڑی خرابی مرتب ہوتی ہے۔
|