تیسری شرط: اسے مامور کے بارے میں یہ علم ہونا چاہیے کہ اس نے یہ کام کر لیا ہے یا نہیں ؟ اگر اس نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور پھر بیٹھ گیا، اور اسے شک ہے کہ اس نے تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں ادا کیں یا نہیں ؟ تو وہ تفصیل سے آگا ہ ہونے تک اسے ان کی ادائیگی کا حکم دے نہ اسے برا سمجھے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریمـ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور پھر بیٹھ گیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: ’’کیا تو نے نماز پڑھ لی؟‘‘ اس نے جواب دیا: نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کھڑا ہو جا، اور ہلکی سی دو رکعتیں پڑھ لے۔‘‘[1]
مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ قرآن مجید کی ریکارڈنگ کو حرام قرار دیتے ہیں ، اس لیے کہ ان کے خیال میں اس طرح قرآن کی توہین ہوتی ہے، وہ اپنے غلط خیال کی وجہ سے لوگوں کو قرآن مجید ریکارڈ کرنے سے منع کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ برائی یہ ہے کہ آپ لوگوں کو اس چیز سے منع کرتے ہیں جس کی برائی کا آپ کو علم ہی نہیں ہے۔ عبادات کے علاوہ آپ کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ یہ چیز اللہ کے دین میں منکر ہے۔
چوتھی شرط: وہ بغیر نقصان اٹھائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے پر قادر ہو۔ اور اگر اسے نقصان پہنچے تو اس پر یہ کام واجب نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وہ صبر کرتے ہوئے یہ فریضہ ادا کرے تو یہ افضل ہے اور یہ اس لیے کہ تمام واجبات کی ادائیگی قدرت و استطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن:۱۶) ’’اپنی استطاعت کے مطابق اللہ سے ڈوتے رہو۔‘‘
﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرہ:۲۸۶)
’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت کے مطابق ہی مکلف بناتا ہے۔‘‘
اگر اسے یہ ڈر ہو کہ اگر اس نے کسی شخص کو نیکی کا حکم دیا تو وہ اسے قتل کر ڈالے گا، تو اس کے لیے ایسا کرنا ضروری نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتا، بلکہ کبھی اس پر یہ کام کرنا حرام بھی ہوجاتا ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس پر نیکی کا حکم دینا بھی واجب ہے اور صبر کرنا بھی۔ بشرطیکہ معاملہ قتل تک نہ پہنچے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ اگر نیکی کا حکم دینے والے کو قید وغیرہ کی تکلیف دی جائے گی تو اس کا انجام دیکھ کر دوسرے لوگ اس فریضہ کی ادائیگی سے ہاتھ روک لیں گے، حتی کہ پر امن حالات میں بھی یہ سلسلہ رک جانے کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب تک معاملہ اس حد تک نہ پہنچے جب امر بالمعروف کا معاملہ جنس جہاد میں شمار ہونے لگتا ہے۔ مثلاً وہ سنت کا حکم دیتا اور بدعت سے منع کرتا ہو، اگر وہ اب خاموشی اختیار کرے گا تو بدعتی لوگ پیروان سنت کے خلاف چڑھائی کردیں گے۔ لہٰذا ایسے حالات میں سنت کا اظہار اور بدعت کا بیان واجب ہوگا۔ اس لیے کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ کے قبیل سے ہے اورجہاد پر متعین شخص کو جان کے خوف کی وجہ سے معذور نہیں سمجھا جا سکتا۔
|