Maktaba Wahhabi

280 - 552
اس مسئلہ میں معتزلہ اور اہل سنت کے درمیان بہت زیادہ نزاع رہا ہے اور اس کی وجہ سے اہل سنت کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس بارے میں جن لوگوں کو بڑی اذیتوں سے دو چار کیا گیا ان میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا نام سرفہرست ہے، جن کے بارے میں بعض علماء کا قول ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے فتنۂ ارتداد کے ایام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اور فتنۂ خلق قرآن کے مشکل ترین ایام میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ذریعے اسلام کی نصرت و حفاظت فرمائی۔‘‘[1] خلیفہ مامون نے لوگوں کو خلق قرآن کا عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور اس کے لیے اس نے اس قدر متشددانہ رویہ اختیار کیا کہ اس نے کتنے ہی ایسے علماء کو قتل کر ڈالا جنہوں نے یہ عقیدہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا تھا، جبکہ بہت سارے علماء جانیں بچانے کے لیے مختلف تاویلیں گھڑنے لگے۔ مثلاً یہی کہ یہ جبر واکراہ کی حالت ہے اور مجبور آدمی جب زبان سے کلمہ کفر ادا کرے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو اس کا یہ عمل قابل معافی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر امام احمد بن حنبل اور محمد بن نوح رحمہما اللہ نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ قرآن کلام اللہ ہے، یہ اللہ کی مخلوق نہیں ہے، ان کے خیال میں ان پر جس قدر بھی تشدد روا رکھا جائے اس سے ان کے لیے خلاف حق بات کرنے کا جواز پیدا نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ یہ جہاد کا وقت ہے اکراہ اس صورت میں عفو ودرگزر کا متقاضی ہوتا ہے۔ جب کوئی شخصی قسم کا مسئلہ درپیش ہو، مگر جب مسئلہ شریعت کے تحفظ کا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی شریعت کی حفاظت کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اگر اس وقت امام احمد رحمہ اللہ قرآن کے مخلوق ہونے کا فتویٰ جاری کر دیتے تو سب لوگ اسے تسلیم کر لیتے مگر آپ ثابت قدم رہے، اور مذموم حکومتی ہتھکنڈوں اور ایذا رسانیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ’’القرآن کلام اللّٰہ‘‘ کے کلمہ حق کے علمبردار بنے رہے اور پھر بہتر انجام سے سرخرو ہوئے۔ وللہ الحمد الغرض! قرآن کے بارے میں گفتگو کرنا عمومی طور پر کلام اللہ کے بارے میں گفتگو کا ہی حصہ ہوتا ہے مگر جب اس بارے میں ایک فتنہ اٹھ کھڑا ہوا اور معتزلہ واہل سنت کے درمیان یہ شدید قسم کا نزاعی مسئلہ بن گیا تو لوگ قرآن کے بارے میں الگ سے گفتگو کرنے لگے۔ پہلی آیت: ﴿وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ﴾ (التوبۃ: ۶) ’’اگر مشرکین میں سے کوئی شخص تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو حتیٰ کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔‘‘ شرح:…[اَحَدٌ]… بعض علماء نحو کے نزدیک یہ محذوف فعل کا فاعل ہے، جس کی تفسیر اس کا مابعد کرتا ہے، اس بناء پر تقدیری عبارت یوں ہوگی۔ وان استجارک احد من المشرکین فاجرہ۔ اس کی دوسری مثال یہ ارشاد باری ہے: ﴿اِِذَا السَّمَآئُ انشَقَّتْo﴾ (الانشقاق: ۱)
Flag Counter