کروفر کے ساتھ آمادۂ جنگ ہوکر نکل کھڑے ہوئے جس کی قرآن نے اس طرح عکاسی کی ہے:
﴿بَطَرًا وَّ رِئَآئَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (الانفال:۴۷)
(جو اپنے گھروں سے) ’’تکبر کرتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے، وہ اللہ کے راستے سے روکتے تھے۔‘‘
اس دوران جب قریش مکہ کو یہ خبرملی کہ ابو سفیان مسلمانوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو وہ واپس جانے کے لیے مشورہ کرنے لگے۔ مگر ابو جہل نے واپس جانے سے سختی کے ساتھ انکار کردیا ۔ اور کہنے لگاکہ اب ہم بدر پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ ہم وہاں قیام کے دوران شراب نوشی کریں گے۔ اونٹ نحر کریں گے۔ رقص وسرود کی محفلیں سجائیں گے، پھر جب عربوں کو اس کا علم ہو گا تو ان پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی، اور وہ ہم سے ہمیشہ خائف رہا کریں گے۔
یہ چیز ان کے فخرو غرور اور طاقت کے نشہ میں چور ہونے پر دلالت کرتی ہے، مگر بحمد اللہ تعالیٰ معاملہ اس کے الٹ ہوا، جب عربوں کو ان کی بد ترین شکست کا علم ہوا تو وہ ان کی نظروں میں بے وقعت ہو کر رہ گئے۔ آخر کار جب دونوں جماعتیں بدر کے مقام پر ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍoذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ شَآقُّوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِoذٰلِکُمْ فَذُوْقُوْہُ وَ اَنَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ﴾ (الانفال:۱۲۔۱۴)
’’جس وقت آپ کا پرور دگار فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں ، پس تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو، میں عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا، سو تم ان کی گردنوں پر مارو اور ان کے پورپور پر ضرب لگاؤ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ سو یہ سزا چکھو اور جان لو کہ کافروں کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔‘‘
اس جنگ میں کفار و مشرکین کو بد ترین قسم کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔ جبکہ بحمد اللہ اہل ایمان کو نصرت ایزدی سے نوازا گیا۔ انہوں نے مشرکین مکہ کے ستر لوگوں کو قیدی بنا لیا، جبکہ ستر لوگ مارے گئے۔ مرنے والوں میں چوبیس آدمی ایسے تھے جن کا شمار سرداران قریش میں ہوتا تھا، انھیں گھسیٹ کر بدر کے پرانے اور غیر آباد کنویں میں پھینک دیا گیا۔
جنگ کے تین دن بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر ان پر کھڑے ہوئے، آپ ان کے اور ان کے باپوں کے نام لے کر انہیں آوازیں دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’اے فلاں بن فلاں ! کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تم اللہ اور اس رسول کی اطاعت کر لیتے؟ ہم سے تو ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے سچا پایا، کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا تم نے بھی اسے سچا پایا؟ ‘‘ لوگ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا آپ بے روح جسموں سے بات کر رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے جو کچھ کہہ رہا ہوں تم اسے ان سے زیادہ
|