تو پھر اشکال ختم ہوا اور یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک چیز کا دوسری چیز کی صورت پر ہونا اس بات کو مستلزم نہیں ہوتا کہ وہ ہر اعتبار سے اس کے مماثل ہوگی۔
لیکن اگر آپ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں اور اس سے انکار کرتے ہوئے اس بات پر بضد رہیں کہ اس سے مراد مماثلت ہے۔ تو اس کا ایک اور جواب بھی ہے اور وہ یہ کہ اس جگہ اضافت، مخلوق کی اپنے خالق کی طرف اضافت کے باب سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ((خلق آدم علی صورتہ)) آدم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد جیسا ہے۔
﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوحِی﴾ (صٓ: ۷۲) ’’اور میں اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔‘‘
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی روح کا کوئی حصہ ودیعت کر دیا ہو، بلکہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ روح ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی اضافت اس کے شرف کے اظہار کے لیے ہے۔ جب ہم (عباد اللہ) کہتے ہیں تو اس کے تحت مومن، کافر، شہید، صدیق، نبی سبھی آجاتے ہیں مگر جب یہ کہیں گے (محمد عبداللہ) ’’محمد اللہ کے بندے ہیں ۔‘‘ تو یہ اضافت خاصہ ہوگی جو کہ سابقہ عبودیت جیسی نہیں ہے۔
لہٰذا آپ کے ارشاد: ((خلق آدم علی صورتہ)) سے مراد اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ کوئی صورت ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا:
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ﴾ (الاعراف: ۱۱)
’’یقینا ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔‘‘
آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کی صورت پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی آدم علیہ السلام کو اس صورت پر پیدا فرمایا جو کہ کائنات کی سب سے حسین وجمیل صورت ہے۔
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo﴾ (التین:۴)
’’یقینا ہم نے انسان کو بہت اچھی ترکیب وقامت میں پیدا فرمایا۔‘‘
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں بڑی دلچسپی لی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے چہرے پر مارنے اور اس پر حسی اور معنوی طور پر عیب لگانے سے منع کیا گیا ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جواب تحریف ہے یا اس کی کوئی نظیر بھی موجود ہے؟
اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کی نظیر موجود ہے، مثلاً: بیت اللہ، عبداللہ اور ناقۃ اللہ، آدم علیہ السلام کی صورت اللہ تعالیٰ سے الگ اور منفصل ہے۔ اور ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی طرف منسوب کرے اور وہ اس سے الگ اور منفصل ہو تو اس کا شمار اس کی مخلوقات میں ہوتا ہے۔ اس طرح یہ اشکال دور ہوگیا۔ اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ پہلا معنی زیادہ سلامتی والا ہے یا دوسرا؟ تو ہمارے نزدیک پہلے معنی میں زیادہ سلامتی ہے، اس لیے کہ ظاہر لفظ کے لیے عربی زبان میں جواز بھی موجود ہے اور عقلاً اس کا امکان بھی۔ لہٰذا کلام کو اس معنی پر محمول کرنا واجب ہے، جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ صورت سے اس کا دوسری صورت کے ساتھ مماثل ہونا لازم نہیں آتا۔ لہٰذا محفوظیت اسی میں ہے کہ اسے ظاہری مفہوم پر محمول کیا جائے۔
|