Maktaba Wahhabi

378 - 552
اگر اسلامی حدود کی حفاظت کرنے والا مرنے کے بعد فتنہ قبر سے محفوظ رہتا ہے، تو میدان جنگ میں شہید ہونے والا بطریق اولیٰ اس سے محفوظ رہے گا، اس لیے کہ اس نے اعلائے کلمۃ اللہ اور اس کے دین کی نصرت وحمایت کے لیے اپنی گردن کو دشمن کے سامنے پیش کر دیا اور آخر کار اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا اور یہ اس کے صادق الایمان ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔ رابعاً: مرابطون(دشمن کے مقابلہ میں مورچہ نشین) بھی فتنہ قبر سے محفوظ رہیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دن اور ایک رات کا پہرہ مہینہ بھر کے صیام وقیام سے بہتر ہے، اور اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کا وہ عمل مسلسل جاری رہے گا جو وہ کیا کرتا تھا، اس کے لیے اس کا رزق جاری کردیا جائے گا، اور وہ فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ [1] خامساً: کیا قبر میں بچوں اور دیوانوں کا بھی امتحان ہوگا؟ بعض علماء کہتے ہیں کہ ان کا بھی امتحان ہوگا، اس لیے کہ وہ عموم میں داخل ہیں ۔ نیز اس لیے بھی زندگی کی حالت میں ان سے تکلیف ساقط ہوگئی تھی، اور موت کی حالت زندگی کی حالت سے مختلف ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بعض علماء کے نزدیک ان کا امتحان نہیں ہوگا، اس لیے کہ وہ غیر مکلف ہیں ۔ اور جب وہ غیر مکلف ہیں تو ان کا کوئی حساب نہیں ، حساب تو صرف مکلف کا ہوتا ہے اور اسے ہی اس کے گناہوں کی سزا ملتی ہے، انہیں سزا دی جائے گی، ہاں اگر وہ نیک اعمال کرتے رہے ہوں گے تو انہیں ان کا ثواب ضرور دیا جائے گا۔ دریں حالات مؤلف رحمہ اللہ کے قول ’’فان الناس‘‘ سے پانچ قسم کے لوگ خارج ہوگئے: انبیائے کرام، صدیقین، شہداء، مرابطون اور دیوانوں اور بچوں جیسے عقل سے محروم لوگ۔ تنبیہ: لوگوں کی تین قسمیں ہیں : خالص مومن اور منافقین، ان دونوں قسموں کے لوگوں کو فتنہ قبر سے دوچار کیا جائے گا، جبکہ تیسری قسم خالص کفار کی ہے جن کے فتنہ قبر میں اختلاف ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب ’’الروح‘‘ میں انہیں فتنہ قبر سے دوچار کیے جانے کو ترجیح دی ہے۔ کیا سابقہ امتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے؟ بعض علماء کے نزدیک ان کا بھی یہی حکم ہے۔ صحیح قول یہی ہے، اس لیے کہ جب اشرف الامم، امت اسلامیہ سے قبر میں سوالات کیے جاسکتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ بطریق اولیٰ یہ سلوک کیا جانا چاہیے۔ [فِیْ قُبُوْرِہِمْ۔] …’’قبور‘‘ قبر کی جمع ہے۔ مردوں کا مدفن۔ جبکہ مراد اس سے عام ہے، قبر عالم برزخ کو شامل ہے جو کہ انسان کی موت سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک کے عرصہ پر مشتمل ہے۔ میت کو دفن کیا جائے، اسے میدانوں میں درندے کھا جائیں ، سمندر میں مچھلیاں لقمہ بنا لیں ، یا اسے آندھیاں تلف کر ڈالیں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ظاہر یہ ہے کہ قبر میں ابتلاء وآزمائش کا یہ مرحلہ دنیوی احوال کے اختتام پر شروع ہوتا ہے، اگر میت کی تدفین ایک دو دن یا اس سے زیادہ موخر ہوجائے تو اس سے سوالات کا سلسلہ دفن ہونے کے بعد ہی شروع ہوگا۔
Flag Counter