تک کہ انبیاء، صدیقین، شہداء، مرابطون، غیر مکلف چھوٹے بچے اور دیوانے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں ۔ چونکہ مسئلہ تفصیل طلب ہے لہٰذا ہم یہ کہنا چاہیں گے۔
اوّلاً: اس سے انبیائے کرام مستثنیٰ ہیں ، اور یہ دو وجہ سے ہے:
پہلی وجہ:… انبیائے کرام، شہداء سے افضل ہیں ، اور شہید کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ اسے فتنہ قبر سے محفوظ رکھا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’فتنہ قبر کے لیے اس کے سر پر تلوار کی چمک ہی کافی ہے۔‘‘ [1]
دوسری وجہ:… قبر میں میت سے یہ سوال کیا جائے گا: من نبیک؟ کہ تیرا نبی کون ہے؟ اس حوالے سے انبیائے کرام سے سوال نہیں ہوتا بلکہ ان کے بارے میں سوال ہوتا ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔‘‘ [2] یہ خطاب امت سے ہورہا ہے، جس میں رسول داخل نہیں ہیں ۔
ثانیاً: جہاں تک صدیقین کا تعلق ہے تو ان سے بھی قبر میں سوالات نہیں کیے جاتے، اور یہ اس لیے کہ ان کا مرتبہ شہداء کے مرتبہ سے بلند ہے، جب شہداء فتنۂ قبر سے مستثنیٰ ہیں تو صدیقین بطریق اولیٰ اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ نیز اس لیے بھی کہ چونکہ صدیق، صادق بھی ہوتا ہے اور مصدق بھی، لہٰذا اس وصف کی بناء پر اس کے صدق کا علم ہوتا ہے لہٰذا اس کے اختبار کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے امتحان اس شخص کا ہوتا ہے جس کے صادق یا کاذب ہونے میں شک ہو، مگر جب وہ صادق ہو تو اس کے امتحان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض علماء عمومی دلائل کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ان سے بھی سوال ہوگا۔ واللہ اعلم
ثالثاً: فی سبیل اللہ جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہداء بھی فتنۂ قبر سے مستثنیٰ ہیں ۔ کیونکہ ان کی شہادت کی وجہ سے ان کے ایمان کی سچائی واضح ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ ﴾ (التوبۃ:۱۱۱)
’’یقینا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اس کے عوض کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں ، پس وہ قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں ۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ﴾ (آلِ عمران:۱۶۹)
’’اور تم ان لوگوں کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں شہید کردیئے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں انہیں رزق دیا جاتا ہے۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے سر پر تلواروں کی چمک ہی فتنہ قبر کے لیے کافی ہے۔ [3]
|