Maktaba Wahhabi

76 - 552
تعارض کا پایا جانا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ یہ دونوں حق ہیں اور حق ایک دوسرے سے متعارض نہیں ہوا کرتا، اور چونکہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ اللہ کی طرف سے ہو اس میں تناقض نہیں آیا کرتا۔ قرآن کہتا ہے: ﴿وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo﴾ (النساء: ۸۲) ’’اگر یہ قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘ اگر کسی چیز کی وجہ سے آپ کے فہم میں تعارض کا تاثر پیدا ہوتا ہے تو یہ تعارض نص میں نہیں ہوتا بلکہ آپ کی اپنی معلومات کے اعتبار سے ہوتا ہے، جب آپ کو کتاب وسنت کی نصوص میں تعارض نظر آئے تو ایسا یا تو کم علمی کی وجہ سے ہوگا، یا قصور فہم کی وجہ سے ہو گا، یا پھر بحث وتدبر کا حق ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے۔ اگر کماحقہ بحث وتمحیص اور تدبر سے کام لیا جائے تو بظاہر نظر آنے والا تعارض لا اصل ثابت ہوگا۔ کبھی کبھی اس کے پیچھے قصدو ارادہ کی خرابی بھی کار فرما ہوا کرتی ہے، جس سے انسان توفیق ایزدی سے محروم ہو جاتا ہے، بالکل ان باطل پرستوں کی طرح جو آیات متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ اس مجمل جواب سے یہ بات متفرع ہوتی ہے کہ اشتباہ کے وقت محکم کی طرف رجوع کرنا ضروری قرار پاتا ہے۔ علم میں رسوخ رکھنے والوں کا یہی وطیرہ ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ (اٰل عمران: ۷) ’’اللہ تو وہ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری، اس میں سے کچھ آیتیں محکم ہیں وہی اصل کتاب میں اور دوسری متشابہ ہیں ۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہ آیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں محض فتنہ کی تلاش میں یا اس کی حقیقت تلاش کرتے ہوئے جبکہ اس کی حقیقت کو سوائے اللہ کے کوئی بھی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں مضبوط ہیں وہ کہتے ہیں کہ سب آیات ہمارے رب کی طرف سے ہیں ۔‘‘ راسخین فی العلم متشابہ کو محکم پر محمول کرتے ہیں ۔ جواب مفصل:… پوری نص سے متعلق جواب کی تفصیل اس طرح سے ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد میں مرئی (دیکھی گئی چیز) کو مرئی کے ساتھ تشبیہ نہیں دی گئی بلکہ رؤیت (دیکھنا) کو رؤیت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ حدیث کے الفاظ: ’’سترون ربکم کما ترون القمر‘‘ میں (ک) تشبیہ مصدر مؤول پر داخل ہوا ہے، اس لیے کہ (ما) مصدریہ ہے۔ تقدیر کلام اس طرح ہے: ’’کرؤیتکم القمر لیلۃ البدر‘‘ جس سے مراد یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو اس طرح واضح طور پر دیکھو گے جس طرح چودھویں کے چاند کو دیکھتے ہو۔ اسی معنی کے پیش نظر اس کے بعد فرمایا گیا: ’’لاتضامون فی رؤیتہ‘‘ یا جس طرح دوسری حدیث کے الفاظ ہیں : ’’لا تضارون فی رؤیتہ‘‘یعنی اس کا دیدار کرتے وقت بھیڑبھاڑ نہیں ہوگی یا اس کا دیدار کرتے وقت تمہیں تکلیف نہیں ہوگی۔ اس صورت میں یہ اشکال دور ہو جاتا ہے۔
Flag Counter