Maktaba Wahhabi

470 - 552
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے: ﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ﴾ (الحجرات:۹۔۱۰) ’’اگر مومنوں کے دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے فریق سے لڑو حتی کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان میں عدل کے ساتھ صلح کرا دو، اور انصاف کرو یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کی پسند کرتا ہے، مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لیے اپنے بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو۔‘‘ یہ اہل سنت کے اس قول کی دوسری دلیل ہے کہ کبیرہ گناہ کا فاعل ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ [اقْتَتَلُوْا ] …جمع کا صیغہ ہے، بَیْنَہُمَا اور [طَائِفَتَانِ مثنی ہے جبکہ ان کا مرجع ایک ہے۔ اس لیے کہ طائفہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو کہتے ہیں ، لہٰذا اس اعتبار سے ان کے لیے ’’واقتتلوا‘‘ کہنا درست ہے۔ اس کا شاہد یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلْتَاْتِ طَآئِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ﴾ (النساء:۱۰۲) ’’چاہیے کہ دوسری جماعت آئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی وہ تمہارے ساتھ نماز پڑھ لیں ۔‘‘ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ’’لم تصل‘‘ نہیں فرمایا۔ چونکہ طائفہ ایک بڑی جماعت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کی طرف جمع کی ضمیر کا لوٹانا صحیح ہے۔ (اقتتلوا) میں تو ضمیر معنی کی طرف لوٹتی ہے، اور (بینہما) میں لفظ کی طرف۔ مومنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں اور آپس میں ہتھیار اٹھا لیے۔ جبکہ مومن کا مومن کے ساتھ لڑائی کرنا کفر ہے مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے جنگ میں حصہ نہ لینے والی تیسری جماعت کو ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دینے کے بعد اس کے بارے میں فرمایا: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ﴾ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے صلح کروانے والی جماعت کو باہم لڑنے والی دونوں جماعتوں کا بھائی قرار دیا۔ اس بنا پر یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب ایمان سے خارج نہیں کرتا۔ لہٰذا اگر میں کبیرہ گناہ کے مرتکب کسی مسلمان کے پاس سے گزروں گا تو اسے سلام کہوں گا، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’جب تیری اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کہنا۔‘‘ [1] جب تک یہ شخص مسلمان ہے میں اسے سلام کہتا رہوں گا، بجز اس صورت کے کہ اسے سلام نہ کہنے میں کوئی مصلحت ہو۔ جس طرح کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے ان دو ساتھیوں کے ساتھ ہوا جو غزوۂ تبوک میں شامل نہ ہوسکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter