ٹیڑھا پن نہ ہو، اس لیے کہ مستقیم یہی راستہ ہو سکتا ہے، اسے صفت مقیدہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ بعض راستے غیر مستقیم بھی ہوا کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاہْدُوْہُمْ اِِلٰی صِرَاطِ الْجَحِیْمِo وَقِفُوْہُمْ اِِنَّہُمْ مَسْؤُلُوْنَo﴾ (الصافات: ۲۳۔ ۲۴)
’’انہیں جہنم کا راستہ دکھا دو اور انہیں ٹھہرانا یقینا ان سے پوچھ گچھ ہونی ہے۔‘‘
ظاہر ہے جہنم کا راستہ مستقیم (سیدھا) نہیں ہے۔
[صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِیْنَ]… یعنی ان لوگوں کا راستہ جن پر اللہ نے انعام کیا۔ راستے کی اضافت ان لوگوں کی طرف اس لیے کی گئی کہ وہ اس پر چلنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت کبھی اپنی طرف بھی کی ہے۔
﴿صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ اَ لَا اِِلَی اللّٰہِ تَصِیْرُ الْاُمُوْرُo﴾ (الشوریٰ: ۵۲۔ ۵۳)
’’یقینا آپ سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں ، اللہ کے راستے کی طرف، وہ اللہ کہ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔‘‘
یہ اس اعتبار سے ہے کہ اسی نے اسے مشروع اور اپنے بندوں کے لیے وضع کیا اور یہی راستہ اس تک پہنچاتا ہے۔ یہ اللہ کا راستہ دو اعتبار سے ہے، اس اعتبار سے بھی کہ اس نے اسے اپنے بندوں کے لیے وضع کیا اور اس اعتبار سے بھی کہ وہ اس تک پہنچاتا ہے۔ جبکہ وہ مومن بندوں کا راستہ صرف اس اعتبار سے ہے کہ وہ اس پر چلا کرتے ہیں ۔
[الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ]…اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر ہر فضل واحسان اس کی نعمت ہے۔ ہمارے پاس جو بھی نعمت ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی دو قسمیں ہیں ۔ نعمت عامہ اور نعمت خاصہ۔ خاصہ کی پھر دو قسمیں ہیں ، خاصہ اخص اور خاصہ اعم۔
نعمت عامہ:…مومنین و کفار سب کے لیے ہوتی ہے۔
سوال : کیا اللہ تعالیٰ کفار پر بھی انعامات فرماتا ہے؟
جواب : ہاں ، ضرور فرماتا ہے، مگر یہ وہ انعامات ہیں جو کفار ومومنین کے لیے عام ہیں اور یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے ساتھ ابدان کی درستگی ہوتی ہے نہ کہ ادیان کی، مثلاً ماکولات ومشروبات اور لباس ورہائش وغیرہا ان انعامات ایزدی میں مومن وکافر سب برابر ہیں ۔
نعمت خاصہ:… وہ نعمت جس کے ساتھ ادیان کی اصطلاح ہوتی ہے، مثلاً ایمان، علم اور اعمال صالحہ، یہ نعمت اہل ایمان کے ساتھ خاص جبکہ نبیین، صدیقین، شہداء اور صالحین کے لیے عام ہے۔ انبیاء ورسل پر اللہ تعالیٰ کی خاص ترین نعمت ہوا کرتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
|