مجھے رات کے وقت بہت زیادہ عطیات سے نوازتا ہے، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مانو یہ فرقہ کے لوگ جھوٹ بولتے ہیں اس لیے کہ تیری رات خیر لے کر آتی ہے۔
اس بنا پر ان لوگوں کے نزدیک(ید) سے مراد نعمت ہے نہ کہ حقیقی ید (ہاتھ) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے حقیقی ہاتھ کے اثبات سے تجسیم لازم آتی ہے۔ اور اجسام متماثل ہوا کرتے ہیں ۔ اگر آپ اللہ کو جسم تسلیم کریں گے تو اس چیز کو ارتکاب کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں منع فرمایا ہے:
﴿فَـلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ﴾ (النحل:۷۴)’’تم اللہ کے لیے مثالیں بیان نہیں کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ کی حقیقت کا اثبات کرنے والے! یہ ہماری سعادت مندی کی دلیل ہے کہ ہم کہتے ہیں :پاک ہے وہ ذات جو اعراض وا بعاض اوراغراض سے منزہ ہے۔
ہمارے پاس اس کے کئی جواب ہیں ۔
اولا: ’’یدٌ‘‘ کی نعمت اور قوت کے ساتھ تفسیر کرنا ظاہر لفظ کے خلاف ہے۔ اور ظاہر لفظ کے خلاف ہر چیز مردود ہوتی ہے۔ اِلاَّ یہ کہ اس پر کوئی دلیل قائم ہو۔
ثانیاً: یہ موقف اجماع سلف کی خلاف ہے۔ تمام سلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ یدٌ سے مراد حقیقی ید (ہاتھ) ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ آپ جس اجماع سلف کی بات کرتے ہیں ، وہ اجماع کہاں ہے؟ مجھے خلفاء راشدین سے مروی کوئی ایک بھی ایسا لفظ دکھادیں جس میں انہوں نے یہ کہا ہو کہ اللہ کے ہاتھ سے مراد حقیقی ہاتھ ہے۔
اس شخص سے میں یہ کہوں گاکہ آپ ابو بکر و عمر، عثمان و علی، دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور بعد ازاں کے ائمہ سے مروی کوئی ایسا لفظ بتا دیں جس میں انہوں نے یہ کہا ہو کہ ہاتھ سے مراد قوت ہے یا نعمت۔
مگر یہ اس کی طاقت سے باہر ہے۔
اگر ان کے پاس ظاہر لفظ کے خلاف کوئی معنی ہوتا تو وہ اس کا اظہار بھی کرتے اور وہ ان سے منقول بھی ہوتا۔ جب
انہوں نے اس کا اظہار نہیں کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے ظاہر لفظ کو اپنایا ہے اور یہ کہ اس پر ان کا اجماع ہے۔
اس اصول سے ایک عظیم فائدہ حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی ایسی چیز منقول نہ ہو جو کتاب و سنت کے ظاہر کے خلاف ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی اس کے سوا اور کوئی رائے نہیں ہے، اور یہ اس لیے کہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا، اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام انہی کی زبان میں ان سے مخاطب ہوئے۔ اس سے ضروری قرار پاتا ہے کہ انہوں نے کتاب و سنت کو ان کے ظاہری مفہوم میں سمجھا، جب اس کے خلاف ان سے کوئی بات منقول نہیں ہوگی تو ان کا قول یہی ہوگا۔
ثالثاً: اگر ارشاد باری: ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ جیسی مثالوں میں ہاتھ سے مراد نعمت یا قوت لی جائے تو اس سے غایۃ امتناع ممتنع ہو جاتی ہے،اس لیے کہ یہ مفہوم صرف دو نعمتوں کو مستلزم ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں کسی شمار میں نہیں آسکتیں ۔ نیز یہ اس امر کو بھی مستلزم ہے کہ قوت کی دو قسمیں ہیں حالانکہ قوت ایک ہی معنی میں متعدد نہیں ہو سکتی۔
|