سے خالق کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ لازم آتی ہے۔
جواب: اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ کے اِثبات سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم خالق کو مخلوق کے مماثل قرار دے رہے ہیں ۔ اثبات ید کتاب اللہ، سنت رسول اور اِجماع سلف کے حوالے سے ہوتا ہے، جبکہ خالق کی مخلوق کے ساتھ مماثلت کی نفی پر شرع بھی دلالت کرتی ہے اور عقل وحس بھی۔
شرع کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ: ۱۱)
’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔‘‘
رہی عقل تو اپنی صفات میں خالق کا مخلوق کے ساتھ مماثل ہونا ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ بات خالق میں عیب کے زمرے میں آتی ہے، اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے۔
جہاں تک حس کا تعلق ہے، تو یہ بات ہر انسان کے مشاہدہ میں ہے کہ مخلوقات کے اپنے ہاتھوں میں تفاوت و تباین پایا جاتا ہے۔ کسی کے ہاتھ بڑے ہیں اور کسی کے چھوٹے، کسی کے موٹے اور کسی کے پتلے… الخ۔ تو ایسے میں خالق کے ہاتھوں کا مخلوق کے ہاتھوں سے تباین اور ان کے ساتھ غیر مماثل ہونا بطریق اولیٰ ثابت ہوگا۔
اہل سنت و الجماعت اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ کا اثبات کرتے ہیں ، مگر معتزلہ، جہمیہ، اشعریہ اور ان جیسے کچھ دوسرے اہل تعطیل ان کے بر عکس یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے حقیقی ہاتھ کا اثبات غیر ممکن ہے۔ اس سے مراد قوت ہے، یا نعمت، اس لیے کہ عربی زبان میں ید کا اطلاق قوت اور نعمت پر بھی ہوتا ہے۔
نواس بن سمعان کی صحیح حدیث میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ میں نے اپنے کچھ ایسے بندے نکالے ہیں کہ ان کے ساتھ جنگ کرنے کی کسی میں (یدان ) قوت نہیں ہے‘‘[1] اس حدیث میں وارد لفظ (یدان) قوت کے معنی میں ہے، ان لوگوں سے مراد یاجوج و ما جوج ہیں ۔
رہا (ید)بمعنی نعمت تو اس کا استعمال بہت زیادہ ہے، مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش مکہ کے قاصد نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ’’لولا ید ک عندی لم أجزک بہا لاجبتک‘‘[2] اس جگہ لفظ (ید) نعمت کے معنی میں ہے۔متنبی کہتا ہے:
وَکَمْ لِظَلَامِ اللَّیْلِ عِنْدَکَ مِنْ یَدٍ تُحَدِّثُ أَنَّ الْمَانَوِیَّۃَ تَکْذِبُ
’’تجھ پر رات کی تاریکیوں کے کتنے ہی ایسے احسانات ہیں جو بتا تے ہیں کہ مانو یہ جھوٹ بولتے ہیں ۔‘‘
مانو یہ ایک مجوسی فرقہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ تاریکی شر کو جنم دیتی ہے اور روشنی خیر کو۔ متنبی اپنے ممدوح سے کہتا ہے کہ تو
|