﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ﴾ (الفتح:۱۰)
’’یقینا وہ لوگ جو آپ سے بیعت کر رہے تھے وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کررہے تھے، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔‘‘
چونکہ اس وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں تھے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ کی طرف سے اپنے ہاتھ سے بیعت لی، اور پھر اپنے دائیں ہاتھ کے بارے میں فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔‘‘
بعد ازاں یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر غلط ہے بعد ازاں وہ صحیح و سلامت واپس حدیبیہ میں تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان آتے جاتے رہے جس کا نتیجہ اس صلح کی صورت میں سامنے آیا جو رسول علیہ الصلاۃ والسلام کے لیے فتح مبین قرار پائی۔بیعت رضوان کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاoوَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا o﴾ (الفتح:۱۸۔۱۹)
’’یقینا اللہ راضی ہو گیا ایمان والوں سے جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، پس اس نے معلوم کر لیا جو ان کے دلوں میں تھا، تو اس نے ان پر سکینت اتاری اور انھیں قریب کی فتح عطا فرمائی اور بہت ساری غنیمتیں بھی جنہیں وہ حاصل کریں گے اور اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
ان بیعت کرنے والوں میں خلفاء اربعہ ابوبکرو عمر، عثمان و علی بھی شامل تھے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان سے موصوف کیا جو اس کی طرف سے اس بات کی شہادت ہے کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والا ہر شخص مومن ہے اور اس کا اللہ اس سے راضی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’درخت کے نیچے بیعت کرنے والا کوئی ایک شخص بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔‘‘[1]
ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول قرآن سے ثابت ہے اور دخول نار کا انتفاء سنت سے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کے اور اس ارشاد باری تعالیٰ میں تطبیق کی کیا صورت ہو گی؟
﴿وَ اِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُہَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا﴾ (مریم:۷۱)
’’تم میں سے ہر شخص کو اس پر سے گزرنا ہے، یہ بات تیرے رب پر حتمی اور مقرر شدہ ہے۔‘‘
ان میں تطبیق دو طرح سے ممکن ہے:
اولا:اس جگہ ورود سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک اس سے مراد پل صراط سے گزرنا ہے۔ اس لیے کہ گزرنا بھی ورود کی ایک قسم ہے جس طرح کہ اس ارشاد باری میں ہے:
﴿وَ لَمَّا ورَدَ مَآئَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ﴾ (القصص:۲۳)
|