کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے۔ بلکہ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے اور ان کی تعداد چودہ سو سے زائد تھی۔‘‘
شرح:… اصحاب شجرہ (درخت والوں ) سے مراد بیعت الرضوان میں شریک ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔
اس بیعت کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کرنے کی غرض سے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہوئے، انہوں نے قربانی کے جانور بھی اپنے ساتھ لے رکھے تھے۔ ان کی تعداد تقریباً چودہ سو تھی، جب آپ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے۔ حدیبیہ مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ کانام ہے جو آج کل جدہ کے راستے پر واقع ہے، اس کا کچھ حصہ حدود حرم میں ہے اور کچھ حدود حرم سے باہر۔ اور آپ کی آمد کا مشرکین مکہ کو علم ہوا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا، اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو بیت اللہ کے مجاور اور اس کے محافظ سمجھتے تھے۔
﴿وَ مَا کَانُوْٓااَوْ لِیَآئَ ہٗ اِنْ اَوْلِیَآؤُہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ﴾ (الانفال:۳۴)
’’اور وہ اس کے متولی نہیں ہیں ، اس کے متولی تو صرف متقی (شر سے بچنے والے) ہی ہو سکتے ہیں ۔‘‘
اس کے بعد مسلمانوں اور مشرکین میں مذاکرات شروع ہو گئے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے موقف سے درست بردار ہونے میں بڑی خیر اور مصلحت پنہاں تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی اچانک بیٹھ گئی اور اس نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا، تولوگ کہنے لگے: قصواء نا فرمان ہوگئی۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا: ’’واللہ ! قصواء نافرمان نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ اس کی عادت ہے۔ اصل میں اسے اس اللہ نے روک دیا ہے جس نے ہاتھی والوں کو روک دیا تھا۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کفار مکہ مجھ سے جس بھی ایسی بات کا مطالبہ کریں گے جس سے ان کے پیش نظر حرمات اللہ کی تعظیم کرنا ہوگا تو میں ضرور ان کا وہ مطالبہ پورا کروں گا۔‘‘[1]
مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا تاکہ وہ مشرکین مکہ کو اس بات سے آگاہ کریں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے ہیں ، اس کے علاوہ ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جب مشرکین نے انہیں واپس جانے سے روک لیا تو مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے یہ خبر مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت تھی لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ان سے بیعت لی کہ وہ قاصد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاتلین سے لڑائی کریں گے، مر جائیں گے مگر ہم میں سے کوئی بھی شخص راہ فرار اختیار نہیں کرے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درخت کے نیچے لوگوں سے وہ بابرکت بیعت لے رہے تھے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
|