Maktaba Wahhabi

300 - 552
یعنی حرف (لن) کو نفی موبد تسلیم کرنے کا قول مردود ہے۔ ثانیًا: موسیٰ علیہ السلام نے آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ کا مطالبہ نہیں کیا تھا، بلکہ اس کا مطالبہ اسی وقت کے لیے کیا تھا، ان کے مطالبہ کے بارے میں قرآن کہتا ہے: ﴿اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ﴾ یعنی میں تجھے اسی وقت دیکھنا چاہتا ہوں ، جس کے جواب میں اللہ نے فرمایا: ﴿ لَن تَرَانِي﴾ یعنی تو مجھے اس وقت دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، پھر اللہ نے ان کے سامنے پہاڑ کی مثال رکھی، وہ اس طرح کہ اس نے پہاڑ پر تجلی فرمائی اور اسے ریزہ ریزہ کر دیا، ارشاد ہوتا ہے: ﴿ وَلَـٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي﴾ پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ کی یہ حالت دیکھی تو انہیں معلوم ہوگیا کہ مجھ میں اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے کی طاقت نہیں ہے اور وہ اس ہولناک منظر کو دیکھ کر بے ہوش ہوگئے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا محال ہے، اس لیے کہ دنیا میں انسانی حالت دیدار حق کی متحمل نہیں ہو سکتی، آخر یہ کس طرح ممکن ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کا پردہ نور کا ہے، اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی تجلیات ہر اس چیز کو جلا ڈالیں جہاں تک اس کی مخلوق سے اس کی نگاہ پہنچتی ہے۔ مگر آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ ممکن ہے، اس لیے کہ اس دن لوگ ایسے عالم میں ہوں گے جس میں ان کے احوال دنیا میں ان کے احوال سے مختلف ہوں گے، جیسا کہ کتاب وسنت کی نصوص سے ثابت ہے۔ ثالثاً: آخرت میں رویت حق تعالیٰ کا استحالہ اس کے منکرین کے نزدیک اس بات پر مبنی ہے کہ اس کے اثبات سے اللہ تعالیٰ کے حق میں نقص لازم آتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے واجب کیا ہے اور اس کے حق میں مستحیل کیا ہے، یا پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رؤیت کی درخواست میں حد سے تجاوز کیا اور اس سے اس چیز کا مطالبہ کیا جو اس کے شایان نہیں تھا، تو کیا رؤیت کے منکرین حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ علم رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے واجب کیا ہے اور اس کے حق میں مستحیل کیا ہے؟ اور یہ پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ آیت منکرین رؤیت کے خلاف دلیل ہے نہ کہ ان کے حق میں ۔ اور یوں کتاب اللہ اور سنت صحیحہ سے ہر وہ دلیل جس سے باطل یا حق سے انکار پر استدلال کیا جائے گا۔ وہ اسے پیش کرنے والے کے خلاف جائے گی نہ کہ اس کے حق میں ۔منکرین رؤیت کی دوسری دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُo﴾ (الانعام:۱۰۳) ’’آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں جب کہ وہ آنکھوں کا ادراک کیے ہوئے ہے اور وہ باریک بین بہت خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنی آیت میں ادراک کی نفی ہے جبکہ رؤیت ادراک کو مستلزم نہیں ہوتی، کیا آپ نہیں جانتے کہ آدمی سورج کو دیکھتا تو ہے مگر وہ اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ جب ہم رؤیت باری تعالیٰ کا اثبات کرتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس رؤیت سے اس کا ادراک بھی ہوگیا
Flag Counter