Maktaba Wahhabi

540 - 552
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے امام ہیں ، ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں ان کی بات سنیں گے بھی اور ان کی اطاعت بھی کریں گے: ﴿اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ﴾ (النساء:۵۹) ’’اطاعت کرو اللہ کی، اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے اولی الامر کی۔‘‘ وہ اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی بھی اتباع کرتے ہیں : ’’یقینا تم میرے بعد اپنی حق تلفی اور ایسے امور دیکھو گے جنہیں تم اچھا نہیں سمجھو گے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم ان کا حق ادا کرو اور اپنے حق کا اللہ سے سوال کرو۔‘‘[1] ان کا حق یہ ہے کہ اللہ کی معصیت کے علاوہ ان کی اطاعت کی جائے۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سلمہ بن یزید جعفی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: یا رسول اللہ! اگر ایسے لوگ ہمارے امراء بن جائیں جو ہم سے تو اپنے حق کا مطالبہ کریں جبکہ ہم سے ہمارا حق روک دیں ، تو ایسے میں آپ ہمیں کیا حکم دیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو اور اطاعت کرو، وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں اور تم اپنی ذمہ داری ادا کرو۔‘‘ [2] عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے خوشی اور نا خوشی، تکلیف اور آسانی ہر حال میں سمع و طاعت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، گو ہماری حق تلفی ہو رہی ہو اور یہ کہ ہم امراء سے جھگڑا نہیں کریں گے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’مگر یہ کہ تم علانیہ کفر دیکھو جس کے لیے تمہارے پاس اللہ سے کوئی دلیل ہو۔‘‘[3] نیز اس لیے بھی کہ اگر ہم ان کی متابعت سے ہاتھ کھینچ لیں گے تو طاعت کی لاٹھی پھاڑ ڈالیں گے جس کے نتیجے میں سنگین قسم کے حالات پیدا ہوں گے اور بڑی بھاری مصیبتیں ٹوٹ پڑیں گی۔ رہے علماء کے درمیان اختلافی اور تاویلی امور، تو اگر حکمران ان کا ارتکاب کریں ، تو ایسے امور میں ہمارے لیے ان کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ غیر اجتہادی امور میں بقدر استطاعت ان کی خیر خواہی کرنا واجب ہے، رہے اجتہادی امور: تو ان کے بارے میں ان سے تقدیر و احترام پر مبنی بحث کی جائے گی، لیکن ایسا حق واضح کرنے کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ ذاتی تسکین اور ان پر محض تنقید کرنے کے لیے۔ رہا ان کو ردّ کرنا اور ان کی اطاعت نہ کرنا تو یہ اہل سنت کا طریقہ نہیں ہے۔
Flag Counter