﴿سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِِذَا انْطَلَقْتُمْ اِِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ﴾ (الفتح: ۱۵)
’’عنقریب کہیں گے پیچھے رہ جانے والے جب تم غنیمتوں کی طرف چلو گے تاکہ انہیں حاصل کرو کہ ہمیں بھی اجازت دیں ہم بھی تمہارے پیچھے چلیں ۔‘‘
ان لوگوں کا ارادہ تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہو کر اللہ کے کلام میں تبدیلی کر ڈالیں ، مگر اللہ تعالیٰ غنیمتیں ان لوگوں کے لیے لکھ چکا تھا، جو صلح حدیبیہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مگر جو لوگ صرف مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے روانہ ہوئے ان کا ان میں کوئی حق نہیں ہوگا۔
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے قول کا اثبات ہے۔ ﴿کَذٰلِکُمْ قَالَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلُ﴾
چوتھی آیت: ﴿وَ اتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ﴾ (الکہف: ۲۷) ’’اور پڑھتے رہیں جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی کتاب سے نہیں ہے کوئی بدلنے والا اس کے کلمات کو۔‘‘
شرح:…[مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ]… یعنی قرآن مجید، وحی صرف قول کی صورت میں ہوتی ہے، لہٰذا وہ غیر مخلوق ہے۔
[مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ]… اللہ تعالیٰ نے کتاب کو اپنی ذات کی طرف مضاف فرمایا، اس لیے کہ قرآن کا متکلم وہی ہے اور اس نے اسے جبرئیل علیہ السلام کی وساطت سے محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔
[ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ]… یعنی اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔ البتہ اللہ تعالیٰ خود ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ میں تبدیل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا:
﴿وَ اِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَo﴾ (النحل: ۱۰۱)
’’اور جب ہم بدل دیتے ہیں کوئی آیت دوسری آیت کی جگہ جبکہ اللہ خوب واقف ہے، اس سے جو وہ اتارتا ہے تو وہ کہنے لگتے ہیں یہ آیتیں تو تو خود گھڑ لیتا ہے، بلکہ ان میں سے اکثر بے علم ہیں ۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ: ﴿لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ﴾ کلمات کونیہ وشرعیہ دونوں کو شامل ہے۔ کلمات کونیہ میں سے تو کوئی بھی چیز مستثنیٰ نہیں ہے، کسی کے لیے بھی اللہ کے کلمات کونیہ کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔
جب اللہ تعالیٰ کسی کو موت دینے کا فیصلہ کر لیتا ہے اسے تبدیل کرنے کی کوئی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ جب وہ کسی کو فقر وفاقہ سے دو چار کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے تبدیل کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا، جب رب کائنات قحط سالی کا ارادہ کر لیتا ہے تو اسے کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔
کائنات میں اس قسم کے تمام فیصلے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتے ہیں :
﴿اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُo﴾ (یٰسٓ: ۸۲)
’’اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
|