فرماتا ہے: ﴿وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا﴾ (الفرقان: ۵۲) ’’اور ان سے اس کے ساتھ زور دار انداز میں جہاد کریں ۔‘‘
مسلمانوں نے اس قرآن کے ساتھ مشرق ومغرب کو فتح کیا یہاں تک اس کے مالک بن گئے، اب بھی اگر ہم قرآن کی طرف رجوع کریں تو اپنے اسلاف کی طرح زمین کے مشرق ومغرب کے مالک بن سکتے ہیں ۔
قرآن اس اعتبار سے بھی خیر و برکت کا حامل ہے کہ اس کی تلاوت کرنے والا ہر حرف کے بدلے دس نیکیوں [1] کا حق دار بن جاتا ہے۔ مثلاً لفظ (قَالَ) تین حروف پر مشتمل ہے، اس کی تلاوت کرنے والے کو تیس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں اور یہ قرآن کی برکت ہے، ہم کتاب اللہ کی چھوٹی چھوٹی آیات کی تلاوت کر کے بے شمار نیکیاں سمیٹ سکتے ہیں ۔
حاصل کلام یہ کہ قرآن خیر وبرکت کی حامل کتاب ہے، ہر قسم کے فیوض و برکات اس قرآن عظیم سے ہی حاصل ہوتے ہیں ۔ شاہد ارشاد باری تعالیٰ ﴿اَنْزَلْنٰہُ﴾ میں ہے۔
قرآن کا منزل من اللہ ہونا اس کے کلام اللہ ہونے کی دلیل ہے۔
دوسری آیت: ﴿لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ﴾ (الحشر: ۲۱) ’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کر دیتے تو تم اسے ضرور دیکھ لیتے کہ وہ اللہ کے ڈر سے دبا اور پھٹا جا رہا ہے۔‘‘
شرح:…پہاڑ انتہائی سخت چیز ہے، جن پتھروں سے پہاڑ تشکیل پاتے ہیں ان کی سختی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً﴾ (البقرۃ: ۷۴)’’پھر سخت ہوگئے دل تمہارے اس کے بعد، پس وہ پتھروں جیسے سخت ہوگئے بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت۔‘‘
[خَاشِعًا]… یعنی ذلیل ہو کر، دب کر۔
[مُتَصَدِّعًا]… یعنی اللہ تعالیٰ کے سخت ڈر کی وجہ سے پھٹنے والا۔
مگر قرآن پہاڑوں پر نہیں بلکہ ہمارے دلوں پر اترا اور ان کے دلوں کا حال یہ ہے کہ وہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو چکے ہیں ، نہ کھلتے ہیں اور نہ حق کو قبول کرتے ہیں ۔ الاماشاء اللہ
جب اہل ایمان پر قرآنی آیات کا نزول ہوتا ہے تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کر دیتی ہیں ، مگر جن کے دلوں میں بیماریوں نے ڈیرے جما رکھے ہیں تو وہ ان کی غلاظتوں اور نجاستوں میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں ۔ والعیاذ باللہ
یعنی ان کے دل پہلے سے بھی سخت ہو جاتے ہیں اور ان کی نجاستیں بھی مزید پڑھ جاتی ہیں ۔ نعوذ باللّٰہ من ذلک۔
یہ کلام اللہ کی عظمت ہے کہ اگر اسے پہاڑ جیسی ٹھوس چیز پر بھی اتارا جاتا تو وہ دب جاتا اور پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا۔
یہ ارشاد باری اس بات کی دلیل ہے کہ پہاڑوں میں بھی احساس پایا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل احد کے بارے میں فرمایا تھا: ’’یہ جبل احد ہے یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘[2]
|