Maktaba Wahhabi

459 - 552
انہوں نے اس گناہ سے توبہ کر لی جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں چن لیا، اور ان کی توبہ قبول فرمالی۔ اور گناہ سے توبہ کرنے والا اس آدمی جیسا ہوتا ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ موسیٰ علیہ السلام کا شمار اولوا العزم رسولوں میں ہوتا ہے، ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ کی اس گناہ پر ملامت کریں جس سے انہوں نے توبہ کر لی ہو اور پھر اللہ نے ان کی وہ توبہ قبول کرکے انہیں منتخب بھی فرمالیا ہو۔ انہوں نے ملامت اس مصیبت پر کی تھی جو ان کے اس فعل کی وجہ سے آئی تھی، اور وہ ہے خود انہیں اور ان کی اولاد کو جنت سے نکالا جانا؛اس لیے کہ اس اخراج کا سبب آدم علیہ السلام کی معصیت تھی۔ جب آدم علیہ السلام نے یہ کام اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ جنت سے نکل جائیں ، اور جس پر انہیں ملامت کی جائے۔ تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پر ان کی ملامت کس طرح کر سکتے ہیں ؟ ہم اسے قبول کرتے ہیں ، اور قدریہ کی طرح اس سے انکار نہیں کرتے، مگر ہم جبریہ کی طرح اسے معصیت کی دلیل بھی نہیں بناتے، اس کا ایک دوسرا بھی جواب ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب انسان معصیت سے توبہ کرنے کے بعد اس کی دلیل کے طور پر تقدیر کو پیش کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کو کوئی شخص گناہ سے توبہ کرنے کے بعد اس کے ارتکاب پر ملامت کرے اور اس کے جواب میں آپ یہ کہیں کہ ایسا اللہ تعالیٰ کے قضاء و قدرکی وجہ سے ہوا، اور میں اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں اور اس کے حضور توبہ کرتا ہوں … اور اس جیسے دیگر الفاظ۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آدم علیہ السلام نے معصیت سے توبہ کرنے کے بعد تقدیر سے دلیل پیش کی تھی۔ یقینا یہ خوب صورت توجیہ ہے مگر اسے قبول کرنا اس لیے مشکل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے لیے آدم علیہ السلام کی اس معصیت پر ملامت کرنا ممکن نہیں ہے جس سے انہوں نے توبہ کرلی تھی۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنے اس قول کو اس واقعہ سے ترجیح دی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، تو ان سے فرمایا: ’’کیا تم دونوں نماز نہیں پڑھو گے؟‘‘ اس پر علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جب ہمیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ران پر ہاتھ مارتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گئے: ﴿وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا﴾ (الکہف:۵۴) [1] ’’اور انسان ہر شی سے زیادہ جھگڑالو ہے۔‘‘ مگر میرے نزدیک اس حدیث سے استدلال کرنا محل نظر ہے، اس لیے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنی نیند کے لیے تقدیر سے استدلال کیا تھا، اور سونے والے کو اس کا حق حاصل ہے، اس لیے کہ اس کے فعل کو اس کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے بارے میں فرمایا: ﴿وَ نُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ﴾ (الکہف:۱۸)
Flag Counter