اولوا العزم رسول علیہم السلام ان سے معذرت کر دیں گے۔
ایک تیسری شفاعت بھی ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اور یہ وہ شفاعت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے لیے فرمائیں گے۔
ابو طالب جس طرح کہ صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں وارد ہے۔ کفر پر فوت ہوئے تھے۔[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس چچا تھے، جن میں سے چار نے اسلام کا زمانہ پایا، ان میں سے دو تو کافر ہی رہے جبکہ دو مشرف یا اسلام ہوئے ۔جو دو لوگ کفر کی حالت میں مرے، وہ ہیں :
ابو لہب:یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت زیادہ بد سلوکی کیا کرتاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اور ایندھن اٹھانے والی اس کی بیوی کے بارے میں مکمل سورت نازل فرمائی جس میں ان دونوں کی شدید مذمت کی گئی اور انہیں سخت و عید سنائی گئی ہے۔
ابو طالب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا حسن سلوک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، ان کا کفر پر باقی رہنا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت تھا، اس لیے کہ اگر وہ اس حالت مین نہ ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح دفاع نہ کر سکتے۔ بلکہ انہیں بھی آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرح شدید ایذائیں پہنچائی جاتیں ۔ مگر چونکہ وہ قریش مکہ کے دین پر قائم رہے اور وہ انہیں بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جس کی وجہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و حمایت کرنے کی پوزیشن میں رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو دو چچا دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے، ان میں سے ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ہیں ، ثانی الذکر، اول الذکر سے افضل ہیں ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسد اللہ کا لقب عطا فرمایا، انہوں نے جنگ احد کے موقعہ پر جام شہادت نوش کیا رضی اللہ عنہ و أرضاہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سید الشہداء کے لقب سے ملقب فرمایا۔[2]
اگرچہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے مگر اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شفاعت کرنے کی اجازت دے گا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت انہیں جہنم سے باہر نہیں نکال سکے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا: ’’آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچی ہوگی جس سے ان کا دماغ ابل رہا ہوگا اور اگر میں سفارش نہ کرتا تو وہ اس کی تہہ میں ہوتے۔‘‘[3]
یہ ابو طالب کی شخصیت کی وجہ سے نہیں ، بلکہ ان کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دفاع کی وجہ سے ہے۔
|