Maktaba Wahhabi

425 - 552
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وأما الشفاعۃ الثالثہ؛ فیشفع فیمن استحق النار، وہذہ الشفاعۃ لہ ولسائر النبیین والصدیقین وغیرہم ، فیشفع فیمن استحق النار ان لا یدخلہا ، ویشفع فیمن دخلہا ان یخرج منہا۔)) ’’ رہی تیسری شفاعت ؛ تو وہ آپ جہنم کے مستحقین کے لیے کریں گے، یہ شفاعت آپ بھی کریں گے، اور تمام انبیاء کرام اور صدیقین وغیرہم بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہنم کا استحقاق رکھنے والوں کے لیے شفاعت کریں گے کہ وہ اس میں داخل نہ ہوں اور جو اس میں داخل ہو چکے ہیں انہیں اس سے نکال لیا جائے۔‘‘ شرح:… [استحق النار]… یعنی نافرمان اہل ایمان میں سے جو جہنم کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس کی دو صورتیں ہیں ؛ جو لوگ جہنم کے حق دار قرار دیئے جائیں گے آپ ان کے لیے تو سفارش کریں گے کہ وہ اس میں داخل نہ ہوں ، اور جو اس میں داخل ہوگئے ہیں انہیں اس سے نکال لیا جائے۔ نافرمان اہل ایمان کو جہنم سے نکالے جانے کی شفاعت پر مبنی احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے بلکہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہے۔ رہی اس کے مستحقین کو اس میں داخل نہ کرنے کی شفاعت ؛ تو آپ کی اہل ایمان کے جنازوں میں ان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعاؤں سے مستفاد ہے۔ جن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ انہیں اس میں داخل نہ فرمائے۔ جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یا اللہ! ابو مسلمہ کو معاف فرمادے، اور اس کا درجہ ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند فرمادے۔‘‘[1] مگر یہ شفاعت دنیا سے تعلق رکھتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’جس مسلمان کا جنازہ ایسے چالیس آدمی پڑھیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں ، تو اللہ اس کے بارے میں ان کی شفاعت کو قبول فرما لیتا ہے۔‘‘[2] اس شفاعت کا معتزلہ اور خوارج انکار کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے کے بارے میں ان کا مذہب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے۔ ان کے نزدیک زانی شخص مشرک آدمی جیسا ہے، جسے شفاعت کوئی فائدہ نہیں دے سکے گی اور نہ ہی اللہ کسی کو اس کی شفاعت کرنے کی اجازت دے گا۔ مگر اس بارے میں متواتر احادیث کی وجہ سے ان کا یہ قول مردود ہے۔ [وہذہ الشفاعۃ لہ ولسائر النبیین والصدیقین وغیرہم]…آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بھی جملہ انبیاء کرام، صدیقین اور دوسرے لوگ جہنم کے مستحقین کے لیے شفاعت کریں گے کہ وہ اس میں داخل نہ ہوں اور جو داخل ہوچکے ہیں انہیں اس سے نکال لیا جائے۔ یعنی یہ شفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس کا حق دیگر انبیاء کرام کو بھی حاصل ہے، وہ بھی اپنی اپنی قوموں کے گناہ گاروں کے لیے شفاعت کر سکیں گے۔ اس طرح صدیقین اپنے
Flag Counter