Maktaba Wahhabi

327 - 552
دعائیں توسل کے قبیل سے ہیں ، ’’انزل رحمۃ من رحمتک‘‘ رحمت کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ رحمت جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، یہ نہ تو مخلوق ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ سے الگ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ رَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحَمَۃِ﴾ (الکہف: ۵۸) ’’اور تیرا رب معاف فرمانے والا اور رحمت والا ہے۔‘‘ اور اس کے نزول کا مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری رحمت مخلوق ہے، مگر اس کا شمار رحمت باری تعالیٰ کے آثار میں ہوتا ہے، اور اسی وجہ سے اس پر رحمت کا اطلاق بھی کیا گیا ہے، اس کی مثال یہ حدیث قدسی ہے: ((اَنْتَ رَحْمَتِیْ اَرْحَمُ بِکَ مَنْ اَشَائُ۔))[1] اللہ تعالیٰ نے جنت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’تو میری رحمت ہے، میں تیرے ساتھ جس پر چاہوں گا رحمت کروں گا۔‘‘ شفا کا بھی یہی معاملہ ہے چونکہ اللہ تعالیٰ ہی شفا دینے والا ہے اور اسی سے شفا ملتی ہے، لہٰذا شفا اس کا وصف ہے جو کہ اس کا ایک فعل ہے، شفا اس معنی میں تو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مگر اس اعتبار سے کہ شفاء مریض کو ملتی ہے اس کی مخلوق ہے، اس لیے کہ شفاء بیماری کے خاتمہ سے عبارت ہے۔ [فَیَبْرَأ] …ہمزہ کی زبر کے ساتھ، اس لیے کہ یہ جواب دعا ہے، یعنی: اس مریض پر رحمت نازل فرماتا کہ وہ تندرست ہو جائے۔ لیکن اگر اسے پیش کے ساتھ مرفوع پڑھا جائے تو یہ جملہ مستانفہ ہوگا، اور حدیث کا تسلسل نہیں ہوگا، بلکہ ’’الوجع‘‘ پر وقف کیا جائے گا اور ’’یبرا‘‘ جملہ خبریہ اس بات کا فائدہ دے گا کہ یہ دم کرنے سے مریض شفا یاب ہو جائے گا، مگر اسے منصوب پڑھنا زیادہ موزوں ہے۔ ٭ نویں حدیث بھی علو کے بارے میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( اَلَا تَاْمَنُوْنِیْ وَ اَنَا اَمِیْنُ مَنْ فِی السَّمَائِ۔)) [2] ’’کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے جبکہ میں اس کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔‘‘ شرح:…[ اَ لَا تَاْمَنُوْنِیْ ] … اس میں لغوی اشکال ہے اور وہ ہے بدون ناصب وجازم نون فعل کو حذف کرنا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب افعال خمسہ میں سے کسی فعل کے ساتھ نون وقایہ متصل ہو تو نون رفع کو حذف کرنا جائز ہوتا ہے۔ الا تامنونی کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو۔ [وَاَنَا اَمِیْنُ مَنْ فِی السَّمَائِ۔] … اور آسمان میں اللہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی وحی پر اس کے امین ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سید الانبیاء ہیں اور آپ پر وحی لانے والے جبرئیل بھی امین ہیں ۔
Flag Counter