٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌo﴾ (الحج:۷۰)
’’کیا آپ نہیں جانتے کہ یقینا اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔ بیشک یہ کتاب میں ہے۔ بیشک یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔‘‘
شرح:…[کَمَا]… اس جیسی تعبیر میں کاف تفصیل کے لیے ہوتا ہے۔
[اَلَمْ تَعْلَمْ ]… یعنی اسے مخاطب۔
[اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ] … یہ عام ہے یعنی وہ آسمان اور زمین میں موجود تمام اعیان و اوصاف اور اعمال و احوال کو جانتا ہے۔
[اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ] … کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔
[اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ] … یعنی لکھنا اللہ تعالیٰ کے لیے آسان سی بات ہے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o﴾ (الحدید:۲۲)
’’نہیں پہنچتی کوئی بھی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں ، مگر وہ کتاب میں لکھی ہوتی ہے اس سے قبل کہ ہم اسے پیدا کریں ، یقینا یہ (لکھنا) اللہ پر بہت آسان ہے۔‘‘
شرح:…[فِی الْاَرْضِ ] …مثلاً خشک سالی، زلزلے، اور سیلاب وغیرہا۔
[وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ] …مثلاً بیماریاں اور تباہ کن وبائیں وغیرہا۔
[اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ] …کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔
[نَّبْرَاَہَا ] …یعنی انہیں پیدا کرنے سے قبل ۔ اور ’’نبر أھا‘‘ میں ضمیر کا مرجع مصیبت بھی ہو سکتا ہے اور انفس بھی، یہ ضمیر الارضکی طرف بھی لوٹ سکتی ہے، اور یہ سب کچھ صحیح ہے، اللہ تعالیٰ نے مصیبت کو اسے پیدا کرنے سے پہلے، مصیبت زدہ شخص کو پیدا کرنے سے پہلے اور زمین کو پیدا کرنے سے پہلے لکھ دیا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اللہ نے مخلوقات کی تقدیروں کو آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے
|