عبارت ہے۔ مثلاً لکڑی کو درخت سے کاٹ کر دروازے میں تبدیل کرنا خلق کہلاتا ہے مگر یہ ایسا خلق نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہو، اور وہ ہے: کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا، یا خلق کے ساتھ ایک عین کو دوسرے عین میں تبدیل کرنا۔
[لَا رَبُّ سِوَاہُ] …یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ اکیلا ہی رب ہے جو تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔ اور یہ حقیقی حصر ہے۔
مگر اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ احادیث میں غیر اللہ کے لیے ربو بیت کا اثبات کیا گیا ہے۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گم شدہ اونٹ کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’اسے چھوڑ دیں ، اس کا مشکیزہ اور اس کا جوتا اس کے ساتھ ہے۔ وہ پانی پر وارد ہوتا رہے گا اور درختوں سے خوراک حاصل کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اس کا رب اسے حاصل کرے گا۔‘‘[1] اس کے رب سے مراد اس کا مالک ہے۔
اور حدیث جبرئیل کے الفاظ ہیں : ’’جب لونڈی اپنے رب کو جنم دے گی۔‘‘[2]
آپ اس میں اور مؤلف کے قول: ’’لا رب سواہ‘‘ میں کس طرح تطبیق دیں گے؟
اس حوالے سے ہم یہ کہناچاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی ربو بیت عام اور کامل ہے۔ ہر چیز کا رب اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ جو کچھ بھی کرے وہ اس کے لیے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا ہر فعل رحمت اور حکمت پر مبنی ہوا کرتا ہے، اللہ رب کائنات قحط سالی، بیماری، موت اور اس طرح کی دیگر چیزیں انسانوں کے مقدر میں بھی کرتا ہے اور حیوانات کے مقدر میں بھی۔ اور ہم کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس کی حکمت کے تحت ہے۔
جہاں تک مخلوق کی مخلوق کے لیے ربو بیت کا تعلق ہے تو یہ ربو بیت ناقص بھی ہے اور قاصر بھی، وہ نہ تو اپنے محل سے تجاوز کر سکتی ہے اور نہ ہی اس میں انسان مکمل طور پر تصرف کر سکتا ہے۔
بلکہ اس کا تصرف یا تو شریعت کے ساتھ مقید ہے یا پھر عرف کے ساتھ۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ومع ذلک، فقدأمرالعباد بطاعتہ وطاعۃ رسلہ ونہا ہم عن معصیتہ۔))
’’مگر اس کے باوجود اس نے اپنے بندوں کو اپنی اور اپنے رسولوں کی اطاعت کا حکم دیا اور انہیں اپنی معصیت سے منع فرمایا۔‘‘
شرح:…یعنی اس نے اپنے خلق اور ربوبیت کے عموم کے باوجود بندوں کو بے مقصد نہیں چھوڑا، اور نہ ان سے اختیار سلب کیا، بلکہ انہیں اپنی اور اپنے رسولوں کی اطاعت کا حکم دیا اور اپنی معصیت سے منع فرمایا۔
اس کا اپنے بندوں کو حکم دینا امر ممکن ہے اس لیے کہ جسے اس کا حکم دیا گیا ہے وہ بھی اس کی مخلوق ہے اور اس کا فعل بھی
|