تیسری رائے:…ابو بکر، پھر عمر، پھر علی اور پھر عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
چوتھی رائے:…ابوبکر، پھر عمر رضی اللہ عنہما ، پھر اس بات میں توقف کہ عثمان رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا علی رضی اللہ عنہ ، اس رائے کے حاملین کا کہنا ہے کہ ہم نہ تو یہ کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ افضل ہیں اور نہ یہ کہ علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔ مگر ہم ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد کسی اور کو ان دونوں پر مقدم تسلیم نہیں کرتے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((لکن استقر أمر أہل السنۃ علی تقدیم عثمان علی علّیٍ۔))
’’مگر اہل سنت عثمان رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ پر مقدم قرار دیتے ہیں ۔‘‘
شرح:…اس طرح اہل سنت و جماعت کا فیصلہ یہ قرار پایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے افضل فرد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین یعنی خلافت میں ان کی ترتیب کے مطابق اور یہی بات درست ہے۔ اس کی دلیل گزر چکی ہے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وان کانت ہذہ المسئلۃ مسئلۃ عثمان وعلی لیست من الاصول التی یضلّل الخالف فیہا عند جمہور اہل السنۃ۔))
’’اگر چہ یہ مسئلہ ۔ عثمان رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ کا مسئلہ ۔ ان اصولوں میں سے نہیں ہے جن کے مخالفین کو جمہور اہل سنت کے نزدیک گمراہ کہا جا سکتا ہے۔‘‘
شرح:…یعنی عثمان رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ کے درمیان مفاضلت کا شمار اہل سنت کے ان اصولوں میں نہیں ہوتا جن کے سبب مخالفین پر گمراہی کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل بتاتا ہے تو ہم اسے گمراہ نہیں کہتے، ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی اہل سنت کی ایک رائے ہے ۔ ہمارے پاس اس سے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((لکن التی یضلّل فیہا مسألۃ الخلافۃ۔))
’’مگر جس مسئلہ کے بارے میں کسی کو گمراہ کہا جا سکتا ہے وہ مسئلہ خلاف ہے۔‘‘
شرح:…لہٰذا ہمارے لیے یہ کہنا واجب ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت میں پہلے خلیفہ ابو بکر ہیں پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ان تینو ں کے علاوہ خلیفہ المسلمین صرف علی رضی اللہ عنہ ہیں ، تو یہ شخص
|