کیا جا چکا ہے۔
دوسری چیز: ’’وکما اجمع الصحابۃ علی تقدیم عثمان فی البیعۃ۔‘‘
’’اور جس طرح کہ بیعت کرتے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت عثمانؓ کی تقدیم پر اجماع کیا۔‘‘
اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر مقدم کرنے کے نقلی آثار بھی وارد ہیں ، اور اس بارے ایک عقلی دلیل بھی ہے۔ اور وہ ہے اس پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی افضلیت کو مستلزم ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ خیر القرون پر افضل کی موجودگی میں مفضول کو والی مقرر کرے۔ جس طرح کہ ایک اثر میں وارد ہے: ’’تمہارے حکمران بھی تم جیسے ہی ہوں گے‘‘ خیر القرون کا حاکم بھی اسے ہی بنایا جاسکتا تھا جو ان سب سے بہتر ہو۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((مع ان بعض اہل السنۃ کانوا قد اختلفوا فی عثمان وعلی بعد اتفاقہم علی تقدیم ابی بکر و عمر: ایہما افضل؟ فقدم قوم عثمان و سکتوا، أو ربعوا بعلی۔))
’’یہ اس امر کے باوجود ہے کہ اہل سنت نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تقدیم پر اتفاق کرنے کے بعد عثمان و علی رضی اللہ عنہما میں اختلاف کیا ہے کہ ان میں سے افضل کون ہے؟ کچھ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کو مقدم رکھنے کے بعد خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا پھر علی رضی اللہ عنہ کو چوتھے نمبر پر رکھتے ہیں ۔‘‘
شرح:…لہٰذا وہ کہتے ہیں : ابو بکر ،پھر عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم ، پھر خاموش ہو جاتے ہیں یا پھر علی رضی اللہ عنہ کا نام لیتے ہیں ۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وقدم قوم علیاً و قوم تو قفوا۔))
’’کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مقدم کرتے جبکہ کچھ توقف اختیار کرتے ہیں ۔‘‘
شرح:… یعنی وہ کہتے ہیں : ابو بکر رضی اللہ عنہ ، پھر عمر رضی اللہ عنہ ، پھر علی رضی اللہ عنہ اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ ۔ یہ اہل سنت کی آراء میں سے ایک رائے ہے جبکہ کچھ توقف اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں : ابو بکر رضی اللہ عنہ پھر عمر رضی اللہ عنہ پھر اس بارے میں توقف اختیار کرتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ میں سے افضل کون ہے؟ یہ رائے پہلی رائے سے مختلف ہے۔
اس طرح اس بارے میں چار آراء ہیں :
پہلی اور مشہور رائے:…ابو بکر، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
دوسری رائے:…ابو بکر، پھر عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم اور پھر سکوت ۔
|