Maktaba Wahhabi

72 - 552
جائے گا تو ہم یہی کہیں گے کہ: یہ سوال بدعت ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول جمیع صفات کے لیے میزان ہے۔ مثلاً اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ اگر اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے تو اس کی کیفیت کیا ہے؟ تو اس کا بھی یہی جواب ہے کہ نزول غیر مجہول ہے، کیف غیر معقول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رات کا آخری تہائی حصہ تو منتقل ہوتا رہتا ہے ایسے میں نزول کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ تو ہم کہیں گے: یہ سوال کرنا ہی بدعت ہے، جس چیز کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال نہیں کیا اس کے بارے میں آپ کیسے سوال کر سکتے ہیں ؟ حالانکہ وہ حصول خیر اور حصول علم کے تم سے زیادہ حریص تھے۔ پھر ہم کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے عالم نہیں ہیں ، جب آپ نے لوگوں کو اس کی تعلیم نہیں دی تو ایسے میں آپ کا یہ سوال بدعت ہی ہوگا۔ اگر ہمیں آپ کے بارے میں حسن ظن نہ ہوتا تو ہم تمہارے بارے میں وہی بات کہتے جو تمہارے مناسب حال ہے اور وہ یہ کہ آپ بدعتی شخص ہیں اور یہ اس لیے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اس شخص سے یہ کہتے ہوئے کہ: ’’توبدعتی آدمی ہے۔‘‘ اسے اپنی مجلس سے نکال دیا تھا۔ سلف اہل بدعت سے بڑی نفرت کرتے تھے بلکہ وہ ان کی گفتگو، ان کے اعتراضات، تقدیرات اور مجادلات سے بھی نفرت کیا کرتے تھے۔ برادر محترم! آپ کے لیے اس باب میں سر تسلیم خم کر دینا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کماحقہ اطاعت گزاری کا اہم ترین عنصریہ ہے کہ ان امور میں بحث کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ اسماء و صفات باری تعالیٰ کے بارے میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال نہیں کیا تو ہمیں بھی اس سے گریز کرنا چاہیے، اس لیے کہ اگر ہم اپنے لیے اس قسم کے دروازے کھولنا چاہیں گے۔تو دروازے کھل جائیں گے، دیواریں گر جائیں گی اور پھر ہم اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکیں گے۔ لہٰذا آپ بھی یہ کہہ دیں کہ ہم نے سنا، ہم نے اطاعت کی، ہم ایمان لائے اور ہم نے تصدیق کی۔ اسی میں ہم سب کی سلامتی ہے۔ اگر کوئی انسان صفات باری تعالیٰ سے متعلق کسی ایسی چیز کے بارے میں ایسا سوال کرے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا تو آپ اسے امام مالک رحمہ اللہ والا جواب دیں کہ اس بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ اگر آپ یہ جواب دیں گے تو وہ آپ سے جواب کے حصول کے لیے اصرار نہیں کرے گا اور اگر وہ اپنی بات پر اڑا رہے تو پھر آپ یوں کہیں : ارے بدعتی! اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے، تو ان احکام کے بارے میں سوال کر جن کا تو مکلف ہے اور اگر تو رب تعالیٰ اور اس کے اسماء وصفات کے بارے میں سوال کرے گا، جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وہ سوال نہیں کیا، تو ہم اسے قبول کرنے کے لیے کبھی بھی تیار نہیں ہیں ۔ علمائے سلف سے کچھ ایسا کلام بھی منقول ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ صفات کے مفاہیم ومعانی کا فہم رکھتے تھے، جیسا کہ اوزاعی وغیرہ سے نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے صفات کی آیات اور احادیث کے بارے میں فرمایا: ’’انہیں بلا کیف اسی طرح گزارو جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں ۔‘‘[1] یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ سلف
Flag Counter