اس چیز کا مشاہدہ، اس کی نظیر کا مشاہدہ یا اس کے بارے میں صادق کی خبر۔ یعنی آپ نے خود اس چیز کا مشاہدہ کیا اور اس کی کیفیت سے آگاہ ہوئے یا آپ نے اس کی نظیر کا مشاہدہ کیا۔ مثلاً کسی نے آپ سے کہا کہ فلاں شخص نے اٹھاسی ماڈل ڈاٹسن گاڑی نمبر ۲۰۰۰ خریدی ہے۔ چونکہ آپ کے پاس بھی اس جیسی گاڑی موجود ہے، لہٰذا آپ اس کی کیفیت سے آگاہ ہو جائیں گے۔ یا آپ کے پاس کوئی صادق آدمی آیا اور اس گاڑی کے تمام اوصاف بیان کر دیئے۔ تو آپ اس طرح بھی اس کی کیفیت سے بخوبی آگاہ ہو جائیں گے۔
اسی لیے بعض علماء فرماتے ہیں : جب ہم ’’بدون تکییف‘‘ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہمارا اس کی کیفیت پر اعتقاد نہیں ہے ہم اس کی کیفیت پر اعتقاد رکھتے ہیں مگر ہمیں اس کا علم نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر استواء کی کوئی نہ کوئی کیفیت ضرور ہے مگر اس کا علم کسی کے پاس نہیں ۔ رب تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نزول فرمانے کی کیفیت ضرور ہے لیکن ہمیں اس کا علم نہیں ۔ اس لیے کہ ہر وجود کی کوئی نہ کوئی کیفیت ہوتی ہے مگر وہ کبھی معلوم ہوتی ہے اور کبھی غیر معلوم۔
امام مالک رحمہ اللہ سے ارشاد باری تعالیٰ:
﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیo﴾ (طٰہٰ: ۵) ’’رحمن عرش پر مستوی ہے۔‘‘کے بارے میں سوال کیا گیا کہ وہ کیسے مستوی ہوا؟ تو آپ نے سر جھکا لیا یہاں تک کہ آپ پسینہ پسینہ ہوگئے، پھر سر اٹھا کر فرمانے لگے: ’’استواء تو غیر مجہول ہے‘‘ یعنی اس کا معنی معلوم ہے اس لیے کہ عربی زبان ہمارے پاس موجود ہے۔ ہر وہ جگہ جہاں (استوی) وارد ہوا ہے اور وہ (علیٰ) کے ساتھ متعدی ہے تو علو کے معنی میں وارد ہو ا ہے۔ اسی لیے انہوں نے فرمایا: ’’استواء تو معلوم ہے جبکہ کیفیت غیر معقول ہے‘‘ اس لیے کہ عقل کیفیت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ جس کیفیت کے بارے میں سمعی اور عقلی دلیل مفقود ہو تو اس سے رک جانا ضروری ہے۔ ’’اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔‘‘
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں خبر دی ہے:
’’اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘[1]
کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت اس لیے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الاعراف: ۵۴) ’’وہ عرش پر مستوی ہوا۔‘‘
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے استواء کی کیفیت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال نہ کیا حالانکہ وہ ہم سے کہیں زیادہ علم کے حریص تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور استواء علی العرش کے معنی سے بخوبی آگاہ تھے، مگر اس کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا جب ہم سے اس کے بارے میں سوال کیا
|