کے اعتبار سے بھی غلط ہے اور لغت کے اعتبار سے بھی۔
وصف ثانی :… یعنی صدق کی دلیل یہ فرمان ربانی ہے:
﴿وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًاo﴾ (النساء: ۱۲۲) ’’اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے۔‘‘
یعنی اللہ سے سچا کوئی نہیں ہے۔ صدق کا مطلب ہے: کلام کا واقع کے مطابق ہونا۔ کوئی بھی کلام واقع کے ساتھ اس طرح مطابقت نہیں رکھتا جس طرح کہ کلام اللہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی بتایا وہ مبنی بر صداقت ہے، بلکہ کائنات کی سب سے بڑی صداقت ہے۔
وصف ثالث:… یعنی بیان وفصاحت کی دلیل یہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًاo﴾ (النساء: ۸۷) ’’اور اللہ کی نسبت بات میں کون سچا ہے۔‘‘
اور…﴿ اَ للّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ﴾ (الزمر: ۲۳) ’’اللہ نے انتہائی خوبصورت بات اتاری۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی بات کا حسن، لفظی اور معنوی حسن کو متضمن ہے۔
وصف رابع: قصد وارادہ کی سلامتی کی دلیل ہے:
﴿ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا﴾ (النساء: ۱۷۶)
’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو۔‘‘
نیز…﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ (النساء: ۲۶)
’’اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (احکام) کھول کر بیان کر دے اور تمہاری ان لوگوں کے طریقوں کی طرف راہنمائی کرے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں ۔‘‘
اس طرح کلام اللہ میں وہ چاروں اوصاف جمع ہوگئے جو قبول خبر کو واجب قرار دیتے ہیں ۔
پھر جب صورت حال یہ ہے تو پھر یہ امر ضروری قرار پاتا ہے کہ اس کے کلام کو اس کے اصل مفہوم کے ساتھ قبول کیا جائے اور اس کے مدلول کے بارے میں ہمارے ذہن میں کوئی شک پیدا نہ ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کلام کا تکلم لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ احکام کے بخوبی اظہار اور مخلوق کی رشد وہدایت کے لیے فرمایا ہے۔ پھر چونکہ یہ کلام اعلم القائلین کی طرف سے صادر ہوا ہے۔ لہٰذا اس میں خلاف صدق کسی بات کا پایا جانا ممکن ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا غیر فصیح اور معیوب ہونا ممکن ہے اگر تمام جن وانس مل کر بھی اس جیسا کلام لانا چاہیں تو یہ ان کی استطاعت میں نہیں ہوگا۔ جب کلام میں مذکورہ بالا چار امور جمع ہو جائیں تو مخاطب پر اس کی دلالت کو قبول کرنا واجب ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے مخاطب ہو کر فرمایا:
﴿مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ (صٓ: ۷۵)
’’تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس نے روکا، جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا۔‘‘
|