Maktaba Wahhabi

94 - 552
کلمہ (اعلم) اسم تفضیل ہے، بعض علماء اس سے احتراز کرتے ہوئے (اعلم) کی تفسیر ’’عالم‘‘ سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآنی آیت: ﴿اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَo﴾ (النحل: ۱۲۵) ’’یقینا تیرا رب وہ خوب جانتا ہے اس کو جو اس کے راستے سے گمراہ ہوگیا اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی۔‘‘ (اعلم) عالم کے معنی میں ہے۔ اس لیے کہ (اعلم) اسم تفضیل ہے جو کہ مفضل اور مفضل علیہ میں اشتراک کا متقاضی ہے۔ جو کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے جائز نہیں ہے، جبکہ ’’عالم‘‘ اسم فاعل ہے، جس میں نہ تو مقارنہ ہے اور نہ ہی تفضیل۔ مگر ان کا یہ موقف غلط ہے۔ ایک تو اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ تو اپنی ذات کے لیے (اعلم) کی تعبیر اختیار کرتا ہے اور آپ اس کی تفسیر ’’عالم‘‘ کے ساتھ کرتے ہیں ، دوسرے ہم اس سے اللہ تعالیٰ کے علم کی قدر ومنزلت میں کمی کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ (عالم) میں مساوات کے انداز میں غیر اللہ بھی شریک ہیں ، جبکہ (اعلم)کا متقضٰی یہ ہے کہ علم میں کوئی بھی اس کا ہم پلہ نہیں ہے۔ وہ ہر عالم سے بڑھ کر عالم ہے۔ اس سے صفت علم کی اکملیت کا اظہار ہوتا ہے۔ نیز عربی زبان اسم فاعل کی نسبت سے وصف میں مساوات سے نہیں روکتی، جبکہ اسم تفضیل کے حوالے سے وہ اس کی دلالت میں مشارکت سے روکتی ہے، پھر یہ بات بھی ہے کہ اسم تفصیل کو اس صورت میں بھی لایا جا سکتا ہے جب مفضل علیہ میں وہ معنی سرے سے پایا ہی نہ جاتا ہو۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: ﴿اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ یَوْمَئِذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَاَحْسَنُ مَقِیْلًاo﴾ (الفرقان: ۲۴) ’’جنت والے اس دن بہت اچھے ٹھکانے والے اور بڑی اچھی آرام گاہ والے ہوں گے۔‘‘ اس جگہ اسم تفصیل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ مفضل علیہ میں یہ معنی سرے سے پایا ہی نہیں جاتا۔ اسی طرح مد مقابل سے مجادلہ کے وقت بھی اسم تفضیل کا استعمال جائز ہے اگرچہ مفضل علیہ میں اس معنی کا شائبہ تک موجود نہ ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ئٰ آللّٰہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُوْنَo﴾ (النمل: ۵۹)’’کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جن کو انہوں نے اس کا شریک بنا رکھا ہے۔‘‘ سبھی کے علم میں ہے کہ جن کو انہوں نے شریک بنا رکھا ہے ان میں خیر کا وجود تک بھی موجود نہیں ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُo﴾ (یوسف: ۳۹) ’’کیا جدا جدا رب بہتر ہیں یا اللہ اکیلا زبردست ہی؟‘‘ حالانکہ ارباب من دون اللّٰہ خیر سے تہی دامن ہوتے ہیں ۔ حاصل کلام یہ کہ کتاب اللہ میں وارد کلمہ (اعلم) سے اس کا حقیقی معنی مراد ہے۔ اس کی (عالم) کے ساتھ تفسیر کرنا معنی
Flag Counter