’’پھر اس کے رسول صادق ومصدوق ہیں ، بخلاف ان لوگوں کے جو اس کے بارے میں بغیر علم کے بات کرتے ہیں ۔‘‘
شرح:…[ثُمَّ رُسُلُہُ صَادِقُوْنَ مُصْدُوْقُوْنَ ] … [1] الصادق: واقع کے مطابق خبر دینے والا، تمام رسول ہر اس چیز میں صادق ہوتے ہیں جس کی وہ خبر دیتے ہیں ، مگر اس خبر کا رسول سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہونا ضروری ہے۔ جب کوئی نصرانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کوئی بات منسوب کرے تو یہ بات صرف اسی صورت میں قابل قبول ہوگی کہ وہ صحیح سند کے ساتھ حضرت عیسیٰ سے ثابت ہوجائے۔ جب کوئی یہودی یہ دعویٰ کرے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ کچھ فرمایا، تو اس کا یہ دعویٰ صرف اس وقت قابل تسلیم ہوگا جب ہمیں اس بات کا علم ہوگا کہ یہ بات صحیح سند کے ساتھ آپ سے ثابت ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کرے تو اسے بھی اس صورت قبول کیا جائے گا جب وہ بسند صحیح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے۔
تمام رسولوں کی باتیں مبنی برصداقت ہوا کرتی ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا اس کی مخلوق کی طرف سے جو بھی خبر فراہم کرتے ہیں ، اس میں صادق ہوتے ہیں ۔ وہ کبھی بھی کذب بیانی سے کام نہیں لیتے۔
علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کذب بیانی سے معصوم ہوتے ہیں ۔
’’مصدوقون‘‘ یا ’’مصدقون‘‘ دو نسخے ہیں ۔
’’مصدوقون‘‘ کی صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ ان کی طرف جو بھی وحی کی گئی وہ صدق ہے۔ المصدوق: جسے سچی خبر دی گئی، الصادق۔ صدق کے ساتھ آنے والا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے شیطان کے بارے میں یہ فرمانا: ’’صدقک وہو کذوب‘‘ یعنی شیطان اگرچہ جھوٹا ہے مگر اس نے تجھے سچی خبر دی۔‘‘ اسی قبیل سے ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب شیطان نے ان سے کہا کہ اگر تم آیت الکرسی پڑھ لو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نگہبان تمہارے ساتھ رہے گا، اور شیطان صبح تک تمہارے قریب بھی نہیں آئے گا۔ رسولوں کی طرف جو بھی وحی آتی ہے وہ سراسر صدق ہوتی ہے، نہ تو انہیں رسول بنا کر بھیجنے والا ان کی تکذیب کرتا ہے اور نہ جبرئیل جسے ان کی طرف بھیجا جاتا ہے:
﴿اِِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍo مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍo﴾ (التکویر: ۱۹۔ ۲۱)
’’یقینا یہ قول ہے فرشتے عالی مرتبت کا، جو صاحب قوت ہے عرش والے کے پاس، اونچے درجے والا ہے، اس کی بات مانی جاتی ہے، وہاں امانت دار بھی ہے۔‘‘
اگر ’’مصدقون‘‘ ہو، تو پھر اس کا معنی یہ ہوگا کہ لوگوں پر ان کی تصدیق کرنا شرعاً واجب ہے، اور ان کی تکذیب کرنے والا کافر ہے۔ اس کا یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تصدیق فرمائی ہے، سبھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول سے بھی رسولوں کی تصدیق فرمائی اور اپنے فعل سے بھی۔
|