Maktaba Wahhabi

461 - 552
قبل ان کے واقعات آپ کے سامنے بیان کردیئے ہیں ، اور کچھ رسول ایسے ہیں کہ ہم نے آپ کے سامنے ان کے واقعات بیان نہیں کیے، اور اللہ نے موسیٰ سے صاف صاف کلام کیا۔ ہم نے بھیجا انہیں رسول بنا کر خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کو اللہ پر کسی الزام کا موقع نہ ملے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں وجہ دلالت یہ ہے کہ اگر معاصی پر تقدیر حجت ہوتی تو وہ رسولوں کی آمد پر باطل قرار نہ پاتی، وہ تو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ تمہاری پہلی دلیل کی تردید اس آیت کریمہ سے ہوتی ہے۔ ﴿وَ لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکُوْا وَ مَا جَعَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا وَ مَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍ﴾ (الانعام: ۱۰۷) ’’اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے، اور ہم نے آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا، اور نہ آپ ان پر داروغہ ہیں ۔‘‘ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے۔‘‘ اس کے جواب میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ کفار کے بارے میں کسی کا یہ کہنا کہ ’’اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے‘‘ صحیح اور جائز ہے۔ مگر مشرک کا خود یہ کہنا کہ ’’اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے‘‘ جس سے وہ معصیت پر تقدیر سے دلیل لانا چاہتا ہو، باطل ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بات اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے اور یہ بات واضح کر دینے کے لیے فرمائی تھی کہ جو کچھ ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی معصیت پر تقدیر سے استدلال کے بطلان کی عقلی دلیل کے طور پر ہم اس شخص سے یہ کہنا چاہیں گے کہ ارتکاب معصیت سے قبل آپ کو یہ کس نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ معصیت آپ کے مقدر میں کر رکھی ہے؟ ہم سب کو تو اس کے واقع ہونے کے بعد ہی اس کا علم ہوتا ہے۔ ہم عاصی سے یہ دریافت کریں گے کہ کیا معصیت کے ارتکاب سے قبل تجھے معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں معصیت لکھ دی ہے؟ یقینا وہ اس کا جواب نفی میں دے گا۔ اس پر ہم اس سے یہ کہیں گے: تو یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں اطاعت گزاری رکھی ہے تاکہ تو اس کی ہر اطاعت کرے۔ تیرے سامنے دروازہ کھلا ہے، تو اس دروازے سے داخل کیوں نہیں ہوتا جس میں تجھے اپنا فائدہ نظر آتا ہو، اس لیے کہ تجھے نہیں معلوم کہ تیرے مقدر میں کیا ہے۔ ہم اس شخص سے یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ مکہ مکرمہ کی طرف دو راستے جاتے ہیں ان میں سے ایک راستہ پختہ اور پر امن ہے جبکہ دوسرا مشکل اور خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ کیا آپ پر امن راستے کا انتخاب نہیں کریں گے؟ اس کا جواب وہ یقینا ہاں میں دے گا۔ اب ہم اس سے یہ سوال کریں گے: جب دنیوی راستے کی صورت حال یہ ہے تو آپ اپنی عبادت کے دوران خوفناک اور خطرات سے گھرے راستے پر کیوں چلتے ہیں ؟ اور وہ پر امن راستہ کیوں چھوڑ دیتے ہیں جس پر چلنے والے کے لیے امن کی ضمانت خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے؟ ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ﴾ (الانعام:۸۲)
Flag Counter