کے مدلول پر اعتقاد رکھنے میں کوئی شک نہیں ہے۔
۲۔ جب کہ دوسری قسم وہ ہے جو وحی کے علاوہ نقل کے انداز میں ہم تک پہنچی ہے۔ علم کی یہ وہ قسم ہے جس میں کذب و تحریف اور تغیرو تبدل کا عمل دخل ہوگیا۔ لہٰذا انبیاء سابقین سے جو علم اس انداز سے منقول ہو کر ہم تک پہنچا، اس کے بارے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اہل کتاب تم سے کوئی چیز بیان کریں تو اس کی تصدیق کرو نہ تکذیب اور یوں کہا کرو: ہم اس چیز پر ایمان لائے جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو تمہاری طرف اتاری گئی۔‘‘ [1] اس لیے کہ اگر تم نے اس کی تصدیق کر دی تو یہ باطل کی تصدیق ہوئی اور اگر اس کی تکذیب کر دی تو یہ حق کی تکذیب ہوئی۔ لہٰذا اس کی تصدیق یا تکذیب کرنے سے گریز کریں اور یہ کہہ دیں کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو یقینا میرا اس پر ایمان ہے۔
گزشتہ لوگوں سے ماثورات کی علماء نے تین قسمیں بنائی ہیں :
پہلی قسم: جس کے صدق کی ہماری شریعت گواہی دے دے۔
دوسری قسم: جس کے کذب کی ہماری شریعت گواہی دے دے۔
تیسری قسم: ہماری شریعت اس کی نہ تصدیق کرے اور نہ تکذیب۔ ا س کے بارے میں تو قف اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس کی نہ تو تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وفی العلم الموروث عن محمد صلی اللہ علیہ وسلم مایشفی ویکفی۔))
’’ہم جس علم کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وارث بنے ہیں وہ کتاب اللہ میں ہو یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس میں شفا بھی ہے اور کفایت بھی۔‘‘
شرح:… ہمیں کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی بھی جگہ سے دلوں کو نرم کرنے والے مواعظ کی ضرورت نہیں ہے، ہم اس قسم کے تمام مواعظ سے بے نیاز ہیں ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے جو علمی ورثہ چھوڑا وہ علم اور ایمان کے تمام ابواب میں شفا بخش اور کفایت کندہ ہے۔ ترغیب و تر ہیب کے مقصد کے پیش نظر وعظ و نصیحت اور فضائل کے باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب امور تین قسم کے ہوتے ہیں : صحیح مقبول، ضعیف اور موضوع، ہمیں ضعیف اور موضوع کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔
موضوع کے بارے میں علماء رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ اس کا لوگوں میں ذکر کرنا اور پھیلانا جائز نہیں ہے۔ نہ فضائل کے ابواب میں ، نہ ترغیب و ترہیب کے بارے میں اور نہ ہی کسی اور باب میں ۔ بجز اس صورت کے کہ اس کی حالت بیان کرنے
|