کے لیے اسے ذکر کیا جائے۔
جبکہ ضعیف کے بارے میں ان کا اختلاف ہے۔ جو علماء اس کے ذکر اور اشاعت کے قائل ہیں ، وہ اس کے لیے تین شرائط عائد کرتے ہیں :
پہلی شرط: ضعف شدید نہ ہو۔
دوسری شرط: جس عمل پر ثواب یا عقاب ثابت ہوتا ہو، اس کا اصل صحیح دلیل سے ثابت ہو۔
تیسری شرط: وہ یہ اعتقادنہ رکھے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بلکہ وہ اس بارے میں متردد رہے۔
البتہ وہ ترغیب کے باب میں امید رکھے اور ترہیب کے باب میں ڈرتا رہے۔رہے اسے پیش کرنے کے الفاظ، تو وہ یہ نہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا، بلکہ یوں کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا ہے۔ اور اس طرح کے دوسرے الفاظ۔ اگر آپ ایسے عوام میں ہوں جو ذُکِر، قیل و قال جیسے الفاظ میں فرق نہیں کر سکتے تو ان کے سامنے ایسی بات کا ہرگز ذکر نہ کریں ۔اس لیے کہ عامی شخص یہی سمجھے گا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اس کے نزدیک محراب میں کی گئی ہر بات صواب ہوتی ہے۔
تنبیہ:…یوم آخرت اور علامات قیامت کے باب میں بہت ساری احادیث مذکور ہیں ، ان میں سے کچھ ضعیف ہیں اور کچھ موضوع۔ اور ان میں سے زیادہ تر دل نرم کرنے والی اور مواعظ پر مشتمل کتابوں میں ملتی ہیں ۔ لہٰذا ان سے خود بھی محتاط رہنا ضروری ہے۔ اور ان عوام الناس کو خبردار کرنا بھی ضروری ہے جن کے پاس اس قسم کی کتابیں موجود ہوں ۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((فمن ابتغاہ وجدہ۔))
’’اس کی جستجو کرنے والا اسے حاصل کرے گا۔‘‘
یہ بات بالکل درست ہے۔ ہمارے پاس قرآن مجید بھی ہے اور کتب احادیث بھی۔ البتہ احادیث کی تنقیح کرنے اور ان میں سے صحیح اور ضعیف کی وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ لوگ اس باب میں جس چیز کا اعتقاد رکھتے ہیں وہ اس کی عمارت مضبوط اور محفوظ اساس پر کھڑی کر سکیں ۔
|