جہاں تک برائیوں کا تعلق ہے، تو انسان کے ذمے اس کا کردہ گناہ بھی لکھا جاتا ہے، اور وہ گناہ بھی جس کا اس نے ارادہ کیا اور پھر اس کے لیے کوشش بھی کی، مگر اس کے کرنے سے قاصر رہا۔ اس شخص کے ذمے وہ گناہ لکھ لیا جائے گا جس کی اسنے نیت اور تمنا کی تھی۔
ارتکاب کردہ گناہ کا لکھ لیا جانا تو واضح ہی ہے، مگر جس گناہ کا اس نے ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشاں بھی رہا مگر کسی وجہ سے اس پر عمل نہ کر سکا تو اس کا پورا گناہ اس کے ذمہ لکھ لیا جاتا ہے، اس لیے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان تلواریں پکڑ کر ایک دوسرے کے مد مقابل آجاتے ہیں تو پھر قاتل بھی جہنم میں جائے گا اور مقتول بھی، لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! قاتل تو جہنم میں جائے گاہی، مگر مقتول کس لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے کے لیے کوشاں تھا۔‘‘[1] اسی طرح جس آدمی نے شراب نوشی کا ارادہ کیا مگر کوئی رکاوٹ آڑے آگئی تو اس کے ذمہ پورا پورا گناہ لکھا جائے گا، اس لیے کہ اس نے تو پوری کوشش کی تھی۔
رہا وہ گناہ جس کی اس نے نیت اور تمنا کی، تو یہ گناہ اس کے ذمہ اس کی نیت کی وجہ سے لکھا جائے گا۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے آدمی کے بارے میں بتایا جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تھا اور وہ اس میں غلط روش اختیار کیے ہوئے تھا۔ اسے دیکھ کر ایک فقیر آدمی کہنے لگا: اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی فلاں جیسے کام کرتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ اپنی نیت کے ساتھ ہے، دونوں کا گناہ برابر ہے۔‘‘ [2]
اور اگر اس نے کسی برائی کا ارادہ کیا مگر پھر اسے چھوڑ دیا، تو اس کی تین قسمیں ہیں :
۱۔ اگر اس نے اسے بے بس ہو کر ترک کیا جبکہ اس کے لیے کوشاں رہا، تو وہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے جیسا ہی ہے۔
۲۔ اگر اس نے اسے اللہ کے لیے ترک کر دیا تو وہ عنداللہ ماجور ہوگا۔
۳۔ اور اگر اس نے اسے بے رغبتی کی وجہ سے ترک کر دیا یا اس کا خیال ہی نہ رہا تو ایسے شخص پر نہ تو گناہ لازم آئے گا اور نہ ہی وہ اجر و ثواب حاصل کر پائے گا۔
اللہ عزوجل نیکیوں کا بدلہ عمل سے کہیں زیادہ دیتا ہے جبکہ برائیوں کا بدلہ عمل کے مطابق ہی دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا وَ مَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo﴾ (الانعام:۱۶۰)
’’جو شخص ایک نیکی لے کر آیا اس کے لیے اس سے دس گنا ہوگا، اور جو شخص ایک برائی کے ساتھ آیا اسے نہ سزادی جائے گی مگر اس کے برابر ہی۔ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کی وجہ سے ہے، نیز اس وجہ سے کہ اس کی رحمت اس کے قہر و غضب پر سبقت لے گئی ہے۔
|