وہ دونوں نیت کے اعتبار سے اجر میں برابر ہیں ، عمل کے اعتبار سے نہیں ، اس کی دلیل یہ ہے کہ فقراء مہاجرین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے، یا رسول اللہ! مالدار لوگ ہم سے سبقت لے گئے۔ اس پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’تم ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر‘‘ پڑھ لیا کرو۔ جب اس بات کا علم مالدار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہوا، تو انہوں نے بھی ایسا ہی عمل شروع کردیا۔ اس پر فقراء مہاجرین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس بات کی شکایت کرنے لگے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’یہ اللہ کا فضل ہے اللہ اسے دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔‘‘ [1] اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم اپنی نیت کی وجہ سے ان کے عمل کو پا لو گے۔
نیز عدل کا تقاضا بھی یہی ہے، جس آدمی نے عمل نہیں کیا وہ عمل کرنے والے جیسا نہیں ہوسکتا۔ البتہ وہ نیت کے اجر میں اس جیسا ضرور ہوگا۔
جہاں تک ارادہ کا تعلق ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں :
پہلی قسم: انسان کسی کام کا ارادہ کرے اور پھر اپنی طاقت کے مطابق جو کرسکتا ہو وہ بھی کر گزرے۔ مگر بعد ازاں وہ کسی وجہ سے اسے مکمل کرنے سے قاصر رہے، تو اس شخص کے لیے پورا پورا اجر لکھا جائے گا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
﴿وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُہَا جِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ﴾ (النساء:۱۰۰)
’’اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف مہاجر بن کر نکلے، پھر اسے موت پالے تو اس کا اجر اللہ پر ثابت ہوچکا۔‘‘
یہ طالب علموں کے لیے خوشخبری ہے، جب انسان یہ ارادہ کرے کہ وہ اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے گا۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرے گا اور زمین میں اللہ کے دین کی نشر واشاعت کرے گا، پھر یہ کچھ اس کے مقدر میں نہ ہوسکے، مثلاً علم حاصل کرتے کرتے اسے موت آجائے، تو اس کے لیے اس کی نیت اور اسے عملی شکل دینے کی کوشش کا اجر لکھا جائے گا۔
بلکہ اگر کوئی عمل انسان کی عادت بن چکا تھا پھر وہ کسی سبب سے اس سے محروم رہا تو اس کے لیے اس کا اجر بھی لکھ دیا جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بندہ بیمار پڑجائے یا سفر پر روانہ ہو جائے توا س کے لیے ایسا ہی عمل لکھا جاتا ہے جیسا وہ مقیم ہونے اور تندرستی کی حالت میں کیا کرتا تھا۔‘‘[2]
دوسری قسم: انسان کسی چیز کا ارادہ کرے اور پھر اس پر قدرت حاصل ہونے کے باوجود اسے ترک کر دے، تو اس شخص کے لیے اس کی نیت کی پوری نیکی لکھی جائے گی۔
|