[وَ ہُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ]… یعنی قرآن ہدایت ہے، جس کے ساتھ وہ ہدایت پاتے ہیں ، وہ مینارہ نور ہے جس سے وہ روشنی حاصل کرتے ہیں ، اور ان کے لیے بشارت ہے جس کے ساتھ وہ خوش ہوتے ہیں ۔ بشارت اس لیے کہ جو کوئی قرآن پر عمل کرے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کا شمار سعادت مند اور خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰیo﴾ (اللیل: ۵۔۷)
’’مگر جس نے اللہ کے لیے دیا اور پرہیز گار بنا اور اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم عنقریب اسے آسان طریقہ کی توفیق دیں گے۔‘‘
لہٰذا انسان جب اپنے اندر خیر محسوس کرے، اس پر ثابت قدم رہتا نظر آئے اور اپنے آپ کو اس کی طرف متوجہ پائے تو اسے اس پر خوش ہونا چاہیے۔
اسے اس لیے خوش ہونا چاہیے کہ یہ اس کے لیے بشارت ہے، ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص کا جنت اور جہنم میں ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ اس پر وہ کہنے لگے: کیا ہم عمل چھوڑ کر اسی بات پر توکل نہ کرلیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں ، تم عمل کرتے ہو، ہر ایک کو وہ کام کرنے کی توفیق دے دی جائے گی جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:
﴿فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰیo وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰیo﴾[1] (اللیل: ۵۔۱۰)
’’مگر جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم عنقریب اسے آسان طریقہ کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پرواہ بنا رہا اور نیک بات کو جھٹلاتا رہا، تو ہم عنقریب اس کے لیے سختی کو آسان کر دیں گے۔‘‘
جب تو دیکھے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے رشد وہدایت سے نوازا ہے، اعمال صالحہ کی توفیق بخشی ہے، اچھی چیزوں اور اچھے لوگوں کے ساتھ محبت عطا کی ہے تو پھر خوش ہو جا، اس لیے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرا شمار سعادت مند لوگوں میں ہوتا ہے۔
[وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ]… اللہ تعالیٰ نے ﴿نَعْلَمُ﴾ فرمایا، ’’لقد علمنا‘‘ نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ وہ یہ بات بار بار اور مسلسل کہتے تھے، لہٰذا اسے مضارع کے ساتھ تعبیر کرنا ماضی کے ساتھ تعبیر کرنے سے زیاد موزوں تھا، ماضی کے ساتھ تعبیر کی صورت میں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ بات آسکتی تھی کہ انہوں نے یہ بات زمانہ ماضی میں کہی تھی، وہ اسے مسلسل نہیں دہراتے رہتے۔
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ قریش مکہ کہنے لگے: جس قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آیا ہے یہ اس کے رب کی طرف
|