سے نہیں ہے، بلکہ وہ کسی ایسے شخص کی طرف سے ہے جو اسے پڑھاتا ہے اور اسے گزشتہ اقوام کے قصے سناتا ہے، پھر جنہیں لے کر وہ ہمارے پاس آجاتا ہے اور ہم سے کہتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
العیاذ باللہ! انہوں نے یہ تو دعویٰ کر دیا کہ یہ کسی انسان کا کلام ہے، مگر جب ان سے یہ کہا گیا کہ اس کی مثل پیش کرو تو ایسا کرنے سے قاصر رہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی اس افترا پر دازی کو یہ فرما کر باطل قرار دے دیا: ﴿لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ﴾ ﴿یُلْحِدُوْنَ﴾ مائل ہونے کے معنی میں ہے، اس لیے کہ ان کا قول امر صائب سے انحراف اور حق سے دور ہے۔
[اَعْجَمِیٌّ]… غیر فصیح الکلام کو کہتے ہیں اگرچہ وہ عربی ہی میں کیوں نہ ہو اور عجمی (ہمزہ کے بغیر) عجم کی طرف منسوب ہے اگرچہ وہ عربی میں گفتگو کرتا ہو۔ اس شخص کی زبان عجمی تھی جس شخص کی طرف یہ غلط طور پر قرآن کو منسوب کرتے تھے، وہ شخص غیر عرب تھا اور فصاحت کے ساتھ عربی نہیں بول سکتا تھا۔
[وَّ ہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ]… یعنی وہ خود بیّن ہے اور غیر کے لیے مبیّن۔ قرآن عربی کلام ہے جو کہ فصیح ترین کلام ہے، پھر اس کا صدور اس عجمی شخص سے کیسے ہو سکتا ہے جو صاف طور پر عربی بول بھی نہیں سکتا؟
ان آیات میں شواہد مندرجہ ذیل ہیں :
﴿وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ﴾
﴿قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ﴾ اور ﴿وَہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ﴾
یہ تمام شواہد اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن کلام اللہ اور منزل من اللہ ہے۔
مؤلف نے ان آیات کے بعد کی آیت کو اس لیے ترک کر دیا کہ اس میں شاہد نہیں ہے، مگر اس میں ایک فائدہ ہے۔ جسے ہم بتا دیتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَہْدِیْہِمُ اللّٰہُ وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَo﴾(النحل: ۱۰۴۔ ۱۰۵)
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اللہ انہیں ہدایت نہیں دے گا جھوٹ تو وہ لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں ۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں ہے، اللہ نہ تو انہیں ہدایت دے گا اور نہ ہی وہ اس کی آیات سے فائدہ اٹھا سکیں گے، ان پر ہدایت کے دروازے بند ہیں ، والعیاذ باللہ
یہ حقیقت بہت بڑے فائدہ کی حامل ہے اور وہ یہ کہ جو شخص اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتا اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا اور اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی آیات پر ایمان رکھتا ہے اللہ اسے ہدایت سے نوازتا ہے۔
ہم ایسا پاتے ہیں کہ جو شخص اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتا وہ ان کی حقیقت تک بھی رسائی حاصل نہیں کر پاتا، مثلاً وہ
|