[مُفْتَرٍ]… بمعنی کذاب ہے، یعنی آپ کل یہ کہہ رہے تھے اور آج یہ کہہ رہے ہیں ، یہ کذب ہے، آپ افتراء پرواز ہیں ۔ مگر ان کا یہ قول حماقت پر مبنی ہے، اگر وہ امعان نظر سے کام لیتے تو وہ علم الیقین کی حد تک جان لیتے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ایک آیت کی جگہ دوسری آیت لے کر آتا ہے۔ اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل ہے، اس لیے کہ دروغ گو اپنی پہلی بات کے برعکس بات کرنے سے آخری حد تک محتاط رہنا ہے، اس لیے کہ اسے یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اس طرح لوگوں کو اس کی کذب بیانی کا پتا چل جائے گا، اگر مشرکین کے دعوے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہوتے تو آپ اپنی پہلی بات کے خلاف کوئی دوسری چیز پیش نہ کرتے، اس لیے کہ اس سے تو آپ کی کذب بیانی کھل کر سامنے آجاتی ہے، اس کے برعکس پہلی چیز کے برخلاف کوئی چیز اور لانا آپ کی صداقت کی دلیل ہے۔
اسی لیے اللہ نے فرمایا: ﴿بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ یہ اضراب ابطالی ہے، جس کا معنی ہے: میں افتراء پرداز نہیں ہوں ، لیکن ان میں سے زیادہ تر علم نہیں رکھتے اگر وہ اہل علم ہوتے تو انہیں اس بات کا بھی علم ہوتا کہ ایک آیت کا کسی دوسری آیت کی جگہ میں آنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل ہے۔
[رُوْحُ الْقُدُسِ]… اس سے مراد جبرئیل امین ہیں ، انہیں اس وصف کے ساتھ موصوف کرنے کی وجہ ان کا خیانت سے پاک ہونا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا:
﴿اِِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیمٍo ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْنٍo مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍo﴾ (التکویر: ۱۹۔ ۲۱)
’’یقینا یہ قول ہے فرشتے عالی مرتبت کا، جو صاحب قوت ہے عرش والے کے پاس، اونچے درجے والا ہے، اس کی بات مانی جاتی ہے، وہاں امانت دار بھی ہے۔‘‘
اللہ نے ﴿مِنْ رَّبِّکَ﴾ فرمایا: ’’مِنْ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ‘‘ نہیں فرمایا۔ جو کہ ربوبیت خاصہ کی طرف اشارہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ کی طرف سے ربوبیت، خاص سے خاص ترین ربوبیت ہے۔
[بِالْحَقِّ]… یہ نازل کا وصف ہے یا نزول بہ کا۔
اگر یہ نازل کا وصف ہے تو اس کا معنی ہوگا: اس کا نزول حق ہے کذب نہیں ہے۔
اور اگر یہ منزول بہ کا وصف ہے تو پھر اس کا معنی ہے: جو اسے لے کر آیا ہے وہ حق ہے۔
اس جگہ یہ دونوں ہی مراد ہیں ، قرآن اللہ کی طرف سے بھی حق ہے اور وہ اترا بھی حق کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ﴾ (الاسراء: ۱۰۵) ’’ہم نے اسے حق کے ساتھ اتارا اور وہ حق کے ساتھ اترا۔‘‘ قرآن بھی حق ہے اور اس کی تعلیمات بھی مبنی برحق ہیں ۔
[لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا]… یہ تعلیل بھی ہے اور عظیم ثمرہ بھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن پر ایمان رکھنے والوں کو ثابت قدم بھی رکھتا ہے، انہیں حق آشنا بھی بناتا ہے اور حق پر انہیں تقویت بھی دیتا ہے۔
|