پھر علماء سلف کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ کے دو ہاتھ ہیں ، ان سے زیادہ نہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن و سنت کی نصوص اور اجماع سلف سے ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں تو پھر اس میں اور اس قرآنی آیت میں تطبیق کی کیا صورت ہے:
﴿مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ﴾ (یٰسٓ:۷۱)’’وہ جنہیں ہمارے ہاتھوں نے بنایا۔‘‘
اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے (ایدی) کا لفظ وارد ہے جو کہ جمع ہے۔
اس کا جواب اس طرح سے دیا جا سکتا ہے:
یا تو ہم بعض علماء کی طرح یہ کہہ دیں کہ جمع کا اطلاق کم از کم دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ اس بناء پر ﴿اَیْدِیْنَآ﴾ دو سے زیادہ پر دلالت نہیں کرتا، یعنی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ دو سے زیادہ پر دلالت کرے۔ اس صورت میں چونکہ جمع تثنیہ سے مطابقت رکھتا ہے لہٰذا کوئی اشکال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
سوال: اس کی کیا دلیل ہے کہ جمع کا اطلاق کم از کم دو چیزوں پر ہوتا ہے؟
جواب: اس کی دلیل یہ ارشاد ربانی ہے:
﴿اِِنْ تَتُوْبَا اِِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا﴾ (التحریم:۴)
’’اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو تو تمہارے دل اسی کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔‘‘
وہ عورتیں دو تھیں جبکہ (قلوب) جمع کا صیغہ ہے۔ اور اس سے مراد صرف دو دل ہیں ، اس لیے کہ قرآن کہتا ہے:
﴿مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ﴾ (الاحزاب:۴)
’’اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔‘‘
دو دل نہ تو کسی مرد کے ہیں اور نہ ہی کسی عورت کے۔ اس کی دلیل کے طور پر اس ارشاد ربانی کو بھی پیش کیا جاتا ہے:
﴿فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ﴾ (النساء:۱۱)
’’پھر اگر اس کے بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔‘‘
﴿اِخْوَۃٌ ﴾جمع ہے مگر مراد اس سے دو ہیں ۔
اس کی یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ نماز کی جماعت دو افراد سے بھی ہو جاتی ہے۔
مگر جمہور اہل سنت کہتے ہیں کہ جمع کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے اور یہ کہ مذ کورہ بالا نصوص میں جمع کا دو کی طرف خروج کسی سبب کی وجہ سے ہے۔ اصل قانون یہی ہے کہ جمع کے کم از کم افراد تین ہوتے ہیں ۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس جمع سے مراد اللہ کے ہاتھوں کی تعظیم ہے یہ نہیں کہ اس کے ہاتھ دو سے زیادہ ہیں ۔
اس جگہ ہاتھ سے مراد نفس ذات ہے جو کہ ہاتھ سے موصوف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم:۴۱)
|