ہوتی۔’’ ذی الجلال والاکرام۔‘‘ جس طرح کہ اسی صورت میں آگے چل کر آتا ہے:
﴿تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِیْ الْجَلَالِ وَالْاِِکْرَامِo﴾ (الرحمن: ۷۸)
’’بابرکت ہے تیرے رب کا نام جو جلال واکرام والا ہے۔‘‘
[الْجَلَالِ]… اس کا معنی ہے: عظمت وسلطنت۔
[الْاِِکْرَامِ]… یہ اکرم سے مصدر ہے، اللہ تعالیٰ مکرم بھی ہے اور مکرِم بھی۔ اس کا اکرام یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، اور وہ اکرام کے مستحقین کے لیے مکرِم ہے کہ اس نے ان سے اجر وثواب کا وعدہ کر رکھا ہے۔
رب تعالیٰ اپنے جاہ وجلال اور کمال سلطنت وعظمت کی وجہ سے اس لائق ہے کہ اس کا اکرام کیا جائے اور اس کی تعریف و ثناء بیان کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا اکرام یہ ہے کہ اس کی کماحقہ قدر کی جائے اور اس کی تعظیم بجالائی جائے، اس لیے نہیں کہ وہ تیری طرف سے اکرام کا محتاج ہے بلکہ اس لیے کہ وہ تجھے اس کی جزا دے کر تجھ پر احسان فرمائے۔
دوسری آیت:﴿کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ﴾ (القصص: ۸۸)
’’ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ سوائے اس کے چہرے کے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ﴾ (الرحمن: ۲۶) ’’زمین پر موجود ہر شے فانی ہے۔‘‘
[اِلَّا وَجْہَہٗ]… اسی معنی میں یہ ارشاد باری ہے: ﴿وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِِکْرَامِ﴾ (الرحمن: ۲۷) ’’اور باقی رہے گا چہرہ تیرے رب کا جو جلال واکرام والا ہے۔‘‘ یعنی ہر شے فانی اور زوال پذیر ہے مگر اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہمیشہ باقی رہے گا، اسی لیے ارشاد فرمایا:
﴿لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَo﴾ (القصص: ۸۸)’’اسی کا حکم نافذ ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
پس وہ ہمیشہ باقی رہنے والا حاکم ہے لوگ اسی کی طرف رجوع کریں گے تاکہ وہ ان کا فیصلہ کر دے۔
﴿کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ﴾ کا یہ معنی بھی کیا گیا ہے کہ ہر چیز کو فنا ہے، بجز اس چیز کے جس کے ساتھ اس کی خوشنودی کا حصول مقصود ہوگا۔ اور یہ اس لیے کہ آیت کا سیاق اسی معنی پر دلالت کرتا ہے:
﴿وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ﴾ (القصص:۸۸)
’’اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود مت پکاریں ، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے۔‘‘
گویا کہ اللہ تعالیٰ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو معبود مت پکارو، اس طرح تم اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کے مرتکب ہو گے، اور تمہارا یہ مشرکانہ عمل ضائع وبیکار جائے گا، ہاں وہ عمل باقی رہے گا، جو آپ مخلصانہ طور پر اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے کریں گے، اس لیے کہ اعمال صالحہ کا ثواب باقی رہے گا وہ تو جنت کی نعمتوں میں بھی فنا نہیں
|