لأحرقت سبحات وجہہ ما انتہی الیہ بصرہ من خلقہ) [1] ’’اس کا پردہ نور ہے۔ اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کے انوار اس کی مخلوق سے ہر اس چیز کو جلا ڈالیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے۔ ‘‘
(سبحات وجہہ) یعنی اس کے چہرے کے انوار وتجلیات، تروتازگی، رونق اور عظمت وجلال۔
(ما انتہی الیہ بصرہ من خلقہ) ’’اور اس کی نگاہ کی رسائی ہر چیز تک ہے۔ اس بناء پر اس کا معنی یہ ہوگا کہ اگر رب تعالیٰ کے چہرے سے نور کا یہ پردہ ہٹا دیا جائے تو ہر چیز جل کر راکھ ہو جائے۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں : یہ چہرہ بڑا باعظمت چہرہ ہے جس کا مخلوقات کے چہروں کے ساتھ مماثل ہوناممکن ہی نہیں ۔ اور اس بناء پر ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقی چہرے کے ساتھ متصف ہے۔ اور یہ عقیدہ اس ارشاد سے ماخوذ ہے: ﴿وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِِکْرَامِ﴾ ہمارا یہ بھی عقیدہ کہ رب تعالیٰ کا چہرہ مخلوقات کے چہروں کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتا، اس لیے کہ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوریٰ: ۱۱) ’’اس کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘اور ہم اس چہرے کی کیفیت سے ناواقف ہیں ۔ اس لیے کہ ﴿وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عَلْمًا﴾ (طٰہٰ: ۱۱۰) ’’اور وہ اپنے علم سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔‘‘
اگر کوئی شخص اس کیفیت کا اپنے دل میں تصور کرنے کی کوشش کرے یازبان سے اس کا اظہار کرنا چاہے تو ہم اسے ایسا بدعتی اور گمراہ قرار دیں گے، جو اللہ کے بارے میں بدون علم لب کشائی کرتا ہے، جو کہ ہمارے لیے حرام ہے۔ فرمان باری ہے:
﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بَغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo﴾ (الاعراف: ۳۳)
’’کہہ دو کہ حرام کیا ہے میرے رب نے بے حیائی کے کاموں کو ان میں سے جو ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرو جس کے متعلق اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے بارے میں وہ بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا گیا:
﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلًاo﴾ (الاسراء: ۳۶)
’’اور جس کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ، یقینا کان، آنکھ اور دل، ان تمام کے تمام اعضاء سے پوچھ ہونی ہے۔‘‘
اس جگہ: ﴿وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ فرما کر ربوبیت کی اضافت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے جو کہ ربوبیت کی تمام قسموں سے خاص ہے، اس لیے کہ ربوبیت کی دو قسمیں ہیں : عامہ اور خاصہ، خاصہ کی آگے پھر دو قسمیں ہیں : خاصہ أخص اور اس سے بھی برتر خاصہ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی اپنے رسولوں کی ربوبیت۔
[ذُوْ]… یہ وجہ کی صفت ہے اور اس کی دلیل اس کا مرفوع ہوتا ہے۔ اگر یہ رب کی صفت ہوتا تو پھر عبارت اس طرح
|