Maktaba Wahhabi

103 - 552
انتقام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍo﴾ (ابراہیم: ۴۷) ’’یقینا اللہ تعالیٰ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے۔‘‘ جبکہ منتقم اللہ تعالیٰ کا نام نہیں ہے، اس لیے کہ انتقام یا تو وصف کے طور پر استعمال ہوا ہے، یا اسم فاعل مقید کے طور پر، مثلاً: ﴿اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَo﴾ (السجدہ: ۲۲)’’بے شک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں ۔‘‘ البتہ جن بعض کتابوں میں اسماء باری تعالیٰ کو شمار کیا گیا ہے ان میں اسے اس کے نام کے طور پر گنوایا گیاہے۔ طریق ثالث:… اسے فعل سے اخذ کیا جائے، مثلاً: ﴿وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًاo﴾ (النساء: ۱۶۴) ’’اور اللہ نے موسیٰ سے صاف صاف کلام کی۔‘‘ سے اسم ’’متکلم‘‘ اخذکر لیا جائے۔‘‘ یہ وہ مختلف طریقے ہیں جن سے ہم صفات کا اثبات کر سکتے ہیں اور اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفات اسماء سے عام ہیں ، اس لیے کہ ہر اسم صفت کو متضمن ہوتا ہے مگر ہر صفت اسم کو متضمن نہیں ہوتی۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ سے صفات منفیہ کا تعلق ہے تو ان کی تعداد کافی زیادہ ہے مگر صفات مشبہ ان سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ اس لیے کہ ساری کی ساری صفات اثبات، صفات کمال ہیں ۔ ان میں جس قدر تعدد اور تنوع آئے گا اس سے کہیں زیادہ موصوف کے کمال کا اظہار ہوتا چلے جائے گا۔ چونکہ صفات منفیہ ان سے کم ہیں لہٰذا وہ اکثر اوقات عام انداز میں وارد ہوئی ہیں انہیں کسی معین صفت کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا اور اگر اسے کسی ایسی صفت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے تو ایسا کسی سبب کی وجہ سے ہوا ہے مثلاً بعض لوگوں کے اس دعویٰ کی تکذیب کرنا کہ اللہ اس صفت سے متصف ہے جس کی اس نے اپنی ذات سے نفی کی ہے۔ نفي صفات کی قسم اوّل:… عامہ، اس کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ: ۱۱) ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘ یعنی اس کے علم، قدرت، سمع، بصر، عزت، حکمت، رحمت… میں کوئی بھی چیز اس جیسی نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان امور کو تفصیلاً بیان نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ کہ کوئی بھی چیز اس جیسی نہیں ہے، یہ مجمل اور عام نفی کمال مطلق پر دلالت کرتی ہے۔مگر جب اس کی تفصیل بیان کی جائے تو یہ تفصیل کسی سبب کی وجہ سے فراہم کی جاتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ﴾ (المومنون: ۹۱) ’’اللہ نے کوئی اولاد نہیں اپنائی۔‘‘ اس سے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں ۔ اسی طرح ﴿لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْo﴾ (الاخلاص: ۳) ’’نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔‘‘ نیز…﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍo﴾ (قٓ: ۳۸)’’یقینا
Flag Counter