Maktaba Wahhabi

102 - 552
علی الاطلاق کا تعلق ہے، تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کسی بھی حالت میں وصف بیان نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ العاجز، الخائن، الاعمی اور الاصم وغیرھا ان کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کو موصوف نہیں کیا جا سکتا۔ خادع اور خائن میں فرق ملاحظہ فرمائیں : ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَخَادِعُہُمْ﴾ (النساء: ۱۴۲) ’’یقینا منافق اللہ کو دھوکا دیتے ہیں جبکہ وہ انہیں دھوکا دینے والا ہے۔‘‘ اس جگہ اس نے اس امر کا اثبات کیا کہ وہ دھوکا دینے والوں کو دھوکا دیتا ہے۔ مگر خیانت کے بارے میں فرمایا: ﴿وَ اِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْکَنَ مِنْہُمْ﴾ (الانفال: ۷۱) ’’اور اگر وہ تمہاری خیانت کرنا چاہیں تو وہ اس سے قبل اللہ کی خیانت کر چکے ہیں ۔ پس اللہ نے انہیں آپ کے قابو میں دے دیا۔‘‘ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس نے ان کی خیانت کی، اس لیے کہ مقام ائتمان میں خیانت دھوکا دہی کے زمرے میں آتی ہے جو کہ نقص ہے اور اس میں مدح کا کوئی بھی پہلو موجود نہیں ۔ الغرض! اللہ تعالیٰ سے صفات نقص مطلقاً منفی ہیں ۔ اسماء سے ماخوذ صفات ہر حالت میں صفات کمال ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے مدلول کے ساتھ متصف ہے، سمع صفت کمال ہے جس پر اس کا اسم سمیع دلالت کرتا ہے۔ ہر وہ صفت جس پر اسماء دلالت کرتے ہیں صفت کمال ہے اور وہ اللہ کے لیے علی الاطلاق ثابت ہے۔ ہم اس کو ایک الگ قسم قرار دیتے ہیں ، اس لیے کہ اس میں تفصیل نہیں پائی جاتی، جبکہ دیگر صفات تین قسموں میں منقسم ہیں جن کا ابھی ذکر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو متکلم کے نام سے موسوم نہیں کیا۔ حالانکہ وہ کلام کرتا ہے، اس لیے کہ کلام اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی، اور کبھی نہ اچھی ہوتی ہے اور نہ بری۔ جبکہ برائی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا اور اسی طرح لغو کو بھی، اس لیے کہ وہ سفاہت ہے۔ اس کی طرف صرف خیر کو ہی منسوب کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو متکلم کے ساتھ موسوم نہیں کیا، اسماء اسی طرح ہیں جس طرح اللہ نے انہیں بیان کیا: ﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی﴾ (الاعراف: ۱۸۰) ’’اور اللہ کے لیے اچھے اچھے نام ہیں ۔‘‘ ان میں کسی طرح کا بھی نقص موجود نہیں ہے۔ ان کے لیے اسم تفضیل مطلق کا استعمال بھی اسی لیے ہی کیا گیا ہے۔ سوال : ہم صفات اور اقسام صفات سے آگاہ ہو چکے، لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ تمام صفات توقیفی ہیں تو پھر اثبات صفت کا طریقہ کیا ہے؟ جواب : اثبات صفت کے متعدد طریقے ہیں : طریق اول:… ان پر اسماء کا دلالت کرنا، اس لیے کہ ہر اسم صفت کو متضمن ہوا کرتا ہے ہم نے گزشتہ سطور میں لکھا تھا، اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اس کی ذات اور اس صفت پر دلالت کرتا ہے جس سے وہ مشتق ہے۔ طریق ثانی :… وہ نص سے ثابت ہو۔ مثلاً چہرہ، دو ہاتھ اور دو آنکھیں … یہ صفات نص قرآنی سے ثابت ہیں ۔
Flag Counter