Maktaba Wahhabi

101 - 552
۲۔ صفاتِ منفیہ: انہیں صفات سلبیہ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، جو کہ سلب بمعنی نفی سے ماخوذ ہے، انہیں صفات سلبیہ کا نام دینے میں ہمارے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ بعض لوگ انہیں یہ نام دینے سے گریز کرتے اور صفات منفیہ کے نام پر اصرار کرتے ہیں ، لیکن ہمارے نزدیک چونکہ سلب، نفی کے معنی میں مستعمل ہے لہٰذا یہ ایک لفظی اختلاف ہے جو کہ ضرررساں نہیں ہے۔ الغرض! صفات باری تعالیٰ کی دو قسمیں ہیں : ثبوتیہ اور سلبیہ اگر آپ چاہیں تو انہیں مثبتہ اور منفیہ کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔ صفات مثبتہ وہ تمام صفات جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے اثبات کیا ہے، جو کہ تمام کی تمام صفات کمال ہیں اور ان میں کسی بھی وجہ سے کوئی نقص نہیں ہے۔ اور ان کے کمال کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا تمثیل پر دلالت کرنا ناممکن ہے اس لیے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ مماثلت نقص ہے۔ جب ہم یہ قاعدہ سمجھ گئے تو اس سے ہم اہل تحریف کی گمراہی سے بھی آگاہ ہوگئے، جن کا خیال ہے کہ صفات مشبہ تمثیل کو مستلزم ہیں اور پھر تمثیل سے راہ فرار اختیار ہوئے ان کی نفی کرنے لگے۔ مثلاً، انہوں نے کہا: اگر ہم اللہ کے لیے چہرے کا اثبات کریں تو اس سے اس کی مخلوق کے ساتھ مماثلت لازم آئے گی۔ لہٰذا اس کے معنی کی تاویل حقیقی چہرے سے نہیں بلکہ کسی اور معنی سے کرنی واجب ہوگی۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے جن صفات کا اثبات کیا ہے، وہ صفات کمال ہیں اور جن صفات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خود ثابت کیا ہو ان میں نقص کا در کرآنا ممکن نہیں ہے۔ سوال : کیا اسماء کی طرح صفات بھی توقیفی ہیں یا اس معنی میں اجتہادی کہ ہم اللہ تعالیٰ کو کسی ایسی چیز کے ساتھ موصوف قرار دے سکتے ہیں جس کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو موصوف نہیں کیا؟ جواب : اہل علم کے نزدیک صفات کا اسماء کی طرح توقیفی ہونا مشہور ہے، لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کو انہی اوصاف کے ساتھ موصوف قرار دے سکتے ہیں جن کے ساتھ خود اس نے اپنی ذات کو موصوف کیا ہو۔ دریں حالات یہ کہا جائے گا کہ صفات کی تین قسمیں ہیں : صفت کمال مطلق، صفت کمال مقید اور صفت نقص مطلق۔ جہاں تک علی الاطلاق صفات کمال کا تعلق ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں ، مثلاً متکلم، قادر، فعال لما یرید… اور ان جیسی دیگر صفات۔ رہیں صفات کمال مقید، تو ان کے ساتھ اللہ کا وصف علی الاطلاق نہیں بلکہ مقیداً بیان کیا جا سکتا ہے، مثلاً مکر، خداع اور استحضراء … اور ان جیسی دیگر صفات، تو یہ مقیداً صفات کمال ہیں ۔ اگر ان کا اظہار اس قسم کے کام کرنے والوں کے مقابلہ میں ہو تو صفات کمال ہیں اور اگر ان کا ذکر مطلقاً ہو تو پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہم تقییداً یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ مکر کرنے والوں کے ساتھ مکر کرتا ہے، منافقوں کا مذاق اڑاتا ہے، منافقوں کو دھوکا دیتا ہے… اس لیے کہ یہ مقیداً ہی وارد ہوئی ہیں ۔ مگر ہم اسے علی الاطلاق مکر کرنے والا، مذاق اڑانے والا، یا دھوکا دینے والا نہیں کہہ سکتے۔ جہاں تک صفات نقص
Flag Counter