بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو انھی کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ چنانچہ اولاد ہونے پر کسی کا نام عبدالنبی، کسی کا علی بخش، کسی کا حسین بخش، کسی کا امام بخش، کسی کا پیر بخش، کسی کا سالار بخش، کسی کا پیراں دتہ، کسی کا غلام محی الدین اور کسی کا غلام معین الدین وغیرہ رکھ دیتے ہیں۔
اللہ پاک نے سورۂ یوسف (106:12)میں فرمایا ہے: ’’اکثر لوگ اللہ پر ایمان لاکر بھی شرک کرتے ہیں۔‘‘چنانچہ اگر کوئی شخص نبی کو یا ولی کو یا جن و پری کو یا کسی سچی یا جھوٹی قبر کو یا کسی کے تھان کو یا چلے (نشت گاہ) کو یا کسی مکان و نشان کو یا کسی کے تبرک و تابوت کو سجدہ کرے یا رکوع کرے یا اس کے لیے روزہ رکھے یا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجائے یا چڑھاوا چڑھائے یا ان کے نام کا جھنڈا لگائے یا جاتے وقت الٹے پاؤں چلے یا قبر کو چومے یا قبروں یا دیگر مقامات کی زیارت کے لیے دور سے سفر کرکے جائے یا وہاں چراغ جلائے اور روشنی کا انتظام کرے یا ان کی دیواروں پر غلاف چڑھائے یا قبر پر چادر چڑھائے یا مورچھل جھلے یا شامیانہ تانے یا ان کی چوکھٹ کا بوسہ لے یا ہاتھ باندھ کر دعائیں مانگے یا مرادیں مانگے یا مجاور بن کر خدمت کرے، جھاڑو لگائے یا اس کے آس پاس کے جنگل جھاڑیوں، جانوروں، پرندوں اور کبوتروں کا ادب کرے، غرض اس قسم کا کوئی بھی کام کرے تو وہ شرک فی العبادت کی راہ پر گامزن ہو گیا،یعنی غیر اللہ کی تعظیم اللہ کی سی کرنا، خواہ یہ عقیدہ ہوکہ وہ ذاتی اعتبار سے ان تعظیموں کے لائق ہے یا اللہ اس کی اس طرح تعظیم کرنے سے خوش ہوتا ہے اوراس کی تعظیم کی برکت سے بلائیں ٹل جاتی ہیں، ہر صورت میں یہ شرک ہی ہے۔
40 حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کو اس بات سے مسرت ہوکہ لوگ اس کے سامنے تصویروں کی مانند کھڑے رہیں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘ (جامع الترمذي، حدیث: 2755)
یاد رہے کہ ہمارے ہاں بھی بالخصوص سرکاری آفیسرز حکمرانوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر سیدھے کھڑے ہوتے ہیں۔
|